Tuesday, July 10, 2012



احمد ندیم قاسمی کا افسانہ: تخلیقی بنیادیں
محمد حمید شاہد

کئی برس اُدھر کی بات ہے احمد ندیم قاسمی سے نیلوفر اقبال کے ہاں ایک طویل مکالمہ ہوا تھا۔ تب اور باتوں کے علاوہ اس کی سماجی حقیقت نگاری کی حقیقت بھی جاننا چاہی تھی کہ یار لوگ جب جب اس کے افسانے کی بات کرتے ہیں ساتھ ہی ترقی پسندوں کے اس رویے کا ذکر ہونے لگتا ہے جس میں ایک مخصوص زاویے سے سماج کو دیکھنا ہی حقیقت ٹھہرتا تھا۔ یوں گمان گزرنے لگتا ہے کہ جیسے ایک فارمولا قاسمی کے ہاتھ آگیا ہوگابس اسی کے عین مطابق آنکھوں دیکھی کہانی افسانہ بن جاتی ہوگی۔ اس ملاقات میں ہی میں جان گیا تھا کہ جس طرح قاسمی کی ترقی پسندی ایک منزل پر جاکر اپنے ترقی پسند دوستوں سے مختلف ہوجاتی تھی اسی طرح حقیقت کا تصور بھی مختلف ہوگیا تھااور اس کا سبب اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ قاسمی کافرد اور سماج سے رشتہ بالائی سطح پر نہیں بنتا تھا وہ تو کہیں گہرائی میں جاکر بنتا تھا‘مضبوطی کے ساتھ اور اس میں روحانی سطح پر بھید بھنوراپنا کام دکھاتے رہتے تھے ۔
خیر ! ایک ملاقات کا ذکر ہورہا تھا اور اگر میں بھول نہیں رہا تواس باب میں قاسمی کا نقطہ نظر جو بنا اس کا مفہوم اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ اس کے ہاں مجرد واقعہ نگاری اور مشاہدے کے وسیلے سے محض تصویر کشی کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی تھی اور یہ بھی کہ جو ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں فی الاصل حقیقت وہی نہیں ہوتی کہ وہ تو حقیقت کا ایک رُخ سے اظہار ہو سکتا ‘ وہ رُخ جو ہمارے مشاہدے میں آیا یا آسکتا تھا مگر ایک تخلیق کار کو لکھتے ہوئے خارجی حقیقت کے پیچھے کام کرنے والے تاریخی عمل کے ساتھ احساس کی سطح پر جڑنا ہوتا ہے ۔ لگ بھگ یہ وہی بات تھی جو قاسمی نے اپنے ایک مضمون’’ حقیقت اور فنی حقیقت‘‘ میں کہی تھی جو بہت پہلے یعنی جون انیس سو ستاون کے نقوش میں چھپا تھا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ قاسمی عین آغاز ہی میں اپنے دوستوں سے اس باب میں مختلف ہو گیا تھا ۔ اس الگ طرز احساس کا خود قاسمی کو بھی ادراک تھا تبھی تو اس نے کہا تھا:
’’ اگر ہم حقیقت پسندی اور صداقت پسندی کے فرق کو اپنے ذہنوں میں واضح کر لیں تو ادب وفن میں حقیقت کے اظہار سے متعلق ہماری تمام الجھنیں دور ہو سکتی ہیں اور یہی وہ نقطہ ہے جو ترقی پسند ادب کی تحریک کی ابتدا میں ایک حد تک نظر انداز کیا جاتا رہا ۔ ‘‘
’’حقیقت اور فنی حقیقت‘‘/احمد ندیم قاسمی
یہ جو اوپر کی سطروں میں قاسمی کواپنے ترقی پسند دوستوں کی ناقص حقیقت پسندی کا پول کھولتے ہوئے حجاب سا آگیا اور اسے ’’ابتدا میں ایک حد تک‘‘ کے اضافی الفاظ لکھنے پڑے تو اس کی تلافی اس کے قلم کی روانی نے یوں کردی ہے کہ اگلے ہی جملے میں ’’ایک حد تک‘‘ ہونے والی غلطی ترقی پسندوں کے ہاں چلن بنتی دکھائی دیتی ہے۔ قاسمی نے حقیقت کے اس ناقص تصور کو کھلے لفظوں میں مستردکر دیا تھا۔
قاسمی کی اسی تحریر کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس کے ہاں حقیقت کی کئی سطحیں تھیں ۔ خود اسی کے الفاظ میں:
۱۔ حقیقت جامد چیز نہیں ہوتی
۲۔ ہر خارجی حقیقت کے اندر متعدد لہریں رواں ہوتی ہیں
۳۔ اس کی ایک انفرادی حرکت ہوتی ہے
۴۔ اس کا ماضی کی تاریخی حقیقتوں سے رشتہ ہوتا ہے
۵۔ اور یہ مستقبل کے ساتھ بھی ایک رشتہ بناتی ہے
قاسمی نے حقیقت نگاری کو اس صداقت پسندی سے جوڑ ا جس میں حقیقت اور رومانیت کے درمیان موجود تضاد ختم ہوجاتا ہے۔ یوں قاسمی نے ایک تخلیق کار کو اپنے بنیادی وظیفے سے جڑنے کا قرینہ بتادیا ہے۔ لگ بھگ یہ وہی نقطہ نظر بنتا ہے جس کے زہر اثر فیض نے منشی پریم چند کی حقیقت نگاری مسترد کیا تھااوریہی وہ تخلیقی طرز عمل ہے جس میں ترقی پسندی کی لہر میں رومانیت کی لہر آمیز ہو کراس کے ہاں اپنا جادو جگانے لگی تھی ۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ طرز احساس حقیقت کے باب میں اتنا راست اورجامع ہے کہ جس میں انسانی فہم کے تخلیقی عمل کے دوران اس بھیدبھرے علاقے میں پہنچ جاتی ہے جہاں حقیقت مادے تک محدود رہتی ہے نہ مادی حقیقتوں کی نفی ہوتی ہے مگرفن پارے میں تیسری جہت کی گنجائش بھی نکل آیا کرتی ہے تاہم اس کا یہ اثر ضرور ہوا کہ اس طرز احساس نے قاسمی کے ہاں حقیقت اور رومان کو بہم کرکے جملے کی ساخت کو ٹھوس حقیقت نگاروں سے بہت مختلف بنا دیا تھا۔
صاحب ‘یہ جو قاسمی کے افسانوں پر بات کرنے کا ارداہ باندھ کر اس کی حقیقت نگاری کے تصور کو گرفت میں لینے کے جتن کرنے لگا ہوں تو اس کا سبب یہ ہے کہ میری نظر میں اس کے افسانے کا مزاج اس کے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا ۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ قاسمی کے ہاں غالب رجحان رومانیت پسندی کا رہا ہے تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ کہانی لکھتے ہوئے کبھی کبھی وہ شعوری طور پر اس کے زیر اثر رہاہے مگر یہ واقعہ ہے کہ یہ کہانیاں بھی جوں جوں آگے بڑھتی گئیں سماجی حقیقت نگاری کی لپک اپنا اثر گہرا کرتی گئی ۔ ممکن ہے میری یہ بات آپ فوری طور پر ہضم نہ کر پائیں اسی لیے میں آپ کی توجہ قاسمی کے چندافسانوں کے آغاز کے جملوں کی ساخت کی طرف چاہوں گا:
’’ڈوبتا ہوا سورج ایک بدلی سے چھو گیاتو شام کو آگ لگ گئی ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شفق بدلی میں سما نہیں سکی اس لیے چھلک پڑی ہے۔‘‘
(افسانہ ’’بھرم‘‘/احمد ندیم قاسمی)
’’ درختوں کی شاخیں رات کی خنکی میں ٹھٹھر کر رہ گئی ہیں۔ ہوا چلتی تو شایدان کی رگوں میں اتری ہوئی برف جھڑ جاتی مگر ہوا بھی جیسے درختوں کے اس جھنڈ میں کہیں ٹھٹھری پڑی ہے۔ چاندنی میں کفن کی سی سفیدی ہے۔ فراخ اور ہموار لان پر ایک بلی دبے پاؤں بھاگی جا رہی ہے۔ وہ لان کے قوسی حاشیے پر اُگے ہوئے پھولوں پر ٹھٹھک کر رہ جاتی ہے اور اپنا ایک اگلا پنجہ اٹھاکر دم کو یوں حرکت دیتی ہے جیسے جادو کر رہی ہو۔‘‘
(افسانہ’’زلیخا‘‘/احمد ندیم قاسمی)
’’آسمان پر کفن سا سفید بادل چھارہا تھااور ہوا میں کافور کی سی بُو بسی ہوئی تھی۔‘‘
(افسانہ’’ماتم‘‘/احمد ندیم قاسمی)
’’ انگڑائی کا تناؤ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ انگڑائی ٹوٹ گئی۔ باہیں ادھ کٹی شاخوں کی طرح لٹک گئیں اور گالوں کی شفق زردی میں بدل گئی۔ باہیں کٹی شاخوں کی طرح لٹک گئیں اور گالوں کی زردی شفق میں بدل گئی۔‘‘
(افسانہ’’اکیلی‘‘/احمد ندیم قاسمی)
’’اُن دنوں تم سچ مچ کنول کا پھول تھیں ۔ تمہاری پتیوں پر اگر کوئی بوند گرتی تو صرف پھسل کرگر جانے کے لیے۔ تمہاری پنکھڑیوں کا ہلکا ہلکاگلابی رنگ جو مرمریں سفیدی میں مبہم سی جھلکی مارتا تھا بالکل شفق کے مشابہ تھا۔ تم ہنستی تھیں تو صرف اس لیے کہ تم ہنسنے پر مجبور تھیں ‘مگر تمہارا رونا تمہاری بے لوث ہنسی سے بھی زیادہ لذت آمیز تھا۔‘‘
(افسانہ’’بھری دنیا میں‘‘/احمد ندیم قاسمی)
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس ترقی پسند حقیقت نگارنے ڈوبتے ہوئے سورج کے بدلی سے چھڑ چھاڑ کے معاملے سے کوئی انقلابی معنی نہیں نکالے ۔ درختوں کی شاخیں رات کی خنکی میں ٹھٹھر تی رہیں تو اس کے کوئی نظریاتی معنی نہیں ہیں ۔ آسمان پر کفن سا سفید بادل جھول رہا ہے تو اس میں بھی بالا دست طبقے کی قہاری کی طرف اشارہ خطا ہو گیا ہے۔ انگڑائی کا تناؤ ٹوٹتا ہے اور گالوں کی زردی شفق میں بدل جاتی ہے مگر یہ نعرے کی سرخی نہیں بنتی ۔ کہانی بے لوث لذت سے لطف اندوز کرتی رہتی ہے تاہم صاف صاف پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں رومانیت کی مٹھاس زیادہ ہو گئی ہے جو کہیں کہیں کَھلنے لگتی ہے۔
اور ہاں صاحب‘ یہ بات ماننے کی ہے کہ قاسمی کے جن افسانوں کی ابتدائی سطور اوپر دی گئی ہیں وہ اس کے معروف اور کا میاب تسلیم کیے جانے والے افسانے نہیں کہلائے جاسکتے اور یہ بھی مان لیا جانا چاہیے کہ الحمدللہکنجری‘پرمیشر سنگھ‘رئیس خانہ‘ بین‘اورلارنس آف تھلیبیا وغیرہ جیسے قاسمی کے نمائندہ افسانوں میں اس طرح کا شعوری اہتمام نہیں ملتا۔
’’شادی سے پہلے مولوی ابل کے بڑے ٹھاٹھ تھے کھدر یا لٹھے کی تہبند کی جگہ گلابی رنگ کی سبز دھاریوں والی ریشمی خوشابی لنگی ‘دوگھوڑا بوسکی کی قمیض جس کی آستینوں کی چنٹوں کا شمار سینکڑوں میں تک پہنچتا تھا۔۔۔۔۔۔‘‘
(افسانہ’’الحمدللہ‘‘/احمد ندیم قاسمی)
’’سرور گھر میں داخل ہواتو ایک بہت بھاری خبرکے بوجھ سے اس کی کمر ٹوٹی جارہی تھی ‘گلے کی رگیں پھول رہی تھیں ‘جیسے باتیں اس کے حلق میں آکر لٹک گئی ہوں۔۔۔۔‘‘
(افسانہ’’کنجری‘‘/احمد ندیم قاسمی)
’’اختر اپنی ماں سے یوں اچانک بچھڑ گیا جیسے بھاگتے ہوئے کسی کی جیب سے روپیہ گر پڑے‘ابھی تھااور ابھی غائب۔۔۔‘‘
(افسانہ’’پرمیشرسنگھ‘‘/احمد ندیم قاسمی)
’’پلنگ اتنا چوڑا تھا کہ کہ اس پر جو کھیس بچھا تھاوہ چار کھیسوں کے برابر تھا۔ اس کے وسط میں پلش کے ایک تکیے کے سہارے بڑے ملک صاحب کا جسم ڈھیر پڑا تھا۔۔۔۔‘‘
(افسانہ’’لارنس آف تھلیبیا‘‘/احمد ندیم قاسمی)
آپ نے دیکھا صاحب کہ پہلے ہی جملے سے کہانی کا قضیہ سامنے آنے لگتا ہے ۔ اس کے کردار متحرک ہوجاتے ہیں اور منظر واقعے سے جڑ جاتا ہے ۔ قاسمی کے ان بڑے افسانوں کے ابتدائی جملوں وہ شعوری کوششیں کام نہیں کر رہی ہیں جو میں اس کے دوسرے اور قدرے غیر معروف افسانوں میں اوپر نشان زد کر آیاہوں۔ تاہم جوں جوں آپ یہ معروف افسانے پڑھ کر آگے بڑھتے جائیں گے آپ محسوس کریں گے کہ قاسمی نے کہانی کو اپنی دھج سے آگے بڑھنے دیا ہے اور دونوں رویے غیر محسوس طریقے سے اسی بہاؤ میں آکر آمیز ہوگئے ہیں۔ اس سارے معاملے سے میں نے اپنے تئیں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قاسمی دل سے قائل تھاکہ مجرداور ٹھوس حقیقت نگاری سے تخلیقی عمل خام رہ جاتا ہے لہذا وہ بعض اوقات شعوری طور پر جملوں کی ساخت ایسی بنالیا کرتا جو رومانیت پسندوں کو مرغوب رہی تھی۔تاہم جہاں کہیں بھی دونوں رویے کسی شعوری کوشش کے بغیربہم ہوئے کہانی مکمل ہوگئی اور تخلیق عمل اپنی دھج دکھا گیا۔
ایک اور چیز جس نے قاسمی کے افسانوں کی تخلیقی فضا کو مختلف کیا وہ اس کی دیہات نگاری ہے ۔ یہ بات علم میں رہنی چاہیے کہ قاسمی انیس صد سولہ میں انگہ میں پیدا ہوا۔ اس کے خاندان کا ذریعہ معاش کاشتکاری تھااور اگر آپ نے تھل کے اس بارانی علاقے کو نہیں دیکھ رکھا تو آپ گمان بھی نہیں باندھ سکیں گے کہ اس دور میں ایک معمولی کاشتکار کی زندگی کتنی تلخ ہو سکتی تھی ۔ خود قاسمی نے اپنی کہانی کہتے ہوئے جیسی جھلک دکھائی ہے اس سے جیسا گمان بھی بنتا ہے ویسی ہی تصویر بنا لیں تو بھی آنسو ؤں کا آنکھ کی پتلیوں تک اُمنڈ آنا یقینی ہو جاتا ہے۔
’’ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسے جانے سے پہلے میرے وہ آنسو بڑی احتیاط سے پونچھے جاتے تھے جو اماں سے محض ایک پیسہ حاصل کرنے میں ناکامی کے دکھ پر بہہ نکلتے ۔۔۔‘‘
’’ پیاز یا سبز مرچ یا نمک مرچ کے مرکب سے روٹی کھاتے وقت زندگی بڑی سفاک معلوم ہونے لگتی تھی۔۔۔‘‘
تاہم تلخ ہو جانے والی اس زندگی کی اپنی ایک لذت تھی ۔ سسکتی ہوئی زندگی کے ساتھ ساتھ فرد سے فرد کی وابستگی کا جو ماحول ہم قاسمی کے افسانوں میں دیکھتے ہیں اس کے پیچھے نفسیاتی سطح پر قاسمی کی اپنی زندگی کی اٹھانوجود کے ریشے ریشے میں اترجانے والاتجربہ اور گہرا مشاہدہ کام کر رہا ہوتا ہے ۔ اردو افسانے میں بلونت سنگھ کی دیہات نگاری بھی بہت اہم مگر اس کے ہاں دیہات کا سنگی چہرہ ابھرتا ہے ‘ بیدی کے ہاں کا دیہات مجبوری میں پڑچکے کرداروں کی لاچاری کے پیچھے رہ جاتا ہے ۔ ان دونوں کا اپنا لطف ہے مگر قاسمی نے نہ تو اپنی دیہات نگاری میں کردار سازی کو نظر انداز کیا ہے نہ کردار نگاری کی للک میں دیہات کا چہرہ مسخ یا مدھم ہوا ہے ۔ یوں اس کے افسانوں کا دیہات اس آنگن اور ان گلیوں کا سا ہو جاتا ہے جو خود قاسمی کی زندگی کا حصہ تھیں:
’’ عالم یہ تھا کہ جب ہم بہن بھائی اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتے ‘ وہ چرخہ کاتتیں اور ہم پونیاں بناتے‘ وہ چکی پیستیں ہم مل کر گیت گاتے‘ وہ کوٹھے کی لپائی کرتیں اور ہم سیڑھی سے چمٹے کھڑے رہتے ‘ بہرحال جب ہم اکٹھے ہوتے اور بارش ہونے لگتی تو اماں دہلیز کے پاس بیٹھ جاتیں ۔ ہم تینوں ان کے آس پاس آجاتے ‘ باہر آنگن میں بلبلے ان گنت گنبدوں کا فرش بچھاتے اور آنگن کی بیریوں کے پتے اڑتے ہوئے اندر ہمارے پاس آجاتے اور باہر گلیوں میں ننگ دھڑنگ بچے پرنالوں کے نیچے نہاتے اور چلاتے تو اماں ہمارے سروں پر ہاتھ پھیرتیں اور روتیں اور بڑے دکھ سے آپ ہی آپ کہتیں ’’بوند بوند پانی کے ساتھ فرشتہ اترتا ہے ۔ اے فرشتو !خدا کے دربار میں جاکر مجھ دکھیا کی طرف سے عرض کرو کہ میں نے جو دکھ بھوگے ‘سو بھوگے ‘ان میرے بچوں کو کوئی دکھ نہ دینامیں نے انہیں بڑی مشکل سے پالا پوسا ہے ۔‘‘
یاد رہے اس دکھیاری کا سرتاج انیس صد چوبیس میں مر چکا تھا- تو یوں ہے کہ قاسمی کے ہاں دیہات بھی اسی عورت کی صورت سامنے آتا ہے جس کا خیال رکھنے والا مر چکا ہے‘ جس کے آنگن میں چھم چھم محبت میں گندھے رشتوں کی بارش ہورہی ہے اور جس کے پرنالوں سے دکھ کا چھاجوں پانی برس رہا ہے ۔ قاسمی کے افسانوں کے حوالے سے اس بات کو ریکارڈ پر لانا بہت اہم ہو جاتا ہے کہ کہانی لکھتے ہوئے قاسمی کے ہاں محض دیہات نگاری ہی اس کا مطمع نظر نہیں تھی بلکہ یوں تھا کہ کہانی کا بنیادی خیال ‘ کردارنگاری اور دیہی ماحول ایک دوسرے کا لازمی جزو ہو جاتے تھے۔ قاسمی کے ایک معروف افسانے کا یہ ٹکڑا دیکھئے اس میں خدابخش کے ساتھ اس کا یار ہے جو شہر سے آیا ہے۔ اس کا چہتا نوکر بشکو بھی ساتھ ہے۔ نام تو اس کا بھی خدا بخش تھا مگر وہ نوکر تھا لہذا اس کی الگ سے شناخت ضروری تھی۔ بڑے ملک صاحب کے بیٹے نے اسے بشکو کہا اور یہی اس کی پہچان بن گیا۔ اسی بشکو کے بازو پر وہ باز ہے جس کانام لارنس آف عربیا کی طرز پر خدابخش نے لارنس آف تھلیبیا رکھ چھوڑاہے ۔ کہانی کے اس حصے تک پہنچتے پہنچتے ہم جان چکے ہیں کہ یہ لوگ ڈھائی تین میل کا فاصلہ طے کرکے سرخی مائل مٹی سے لپے ہوئے ایک گھروندے کے پاس پہنچ چکے ہیں۔یہ بابایارو کا گھر ہے جو بعد میں‘ بقول خدابخش ’’بدذات‘کنگلی اور قلاش ‘‘ نکلی تھی ۔ لارنس آف تھلیبیا کی قاتلہ۔ خدا بخش نے چپکے سے اترنے اور آہستہ آہستہ گھر کے قریب جانے کی تجویز پیش کی ۔ اس ٹکڑے میں دیکھئے کہانی کے کردار ‘ منظرنامہ اور معنی کا بہاؤ کیسے ایک دوسرے کا لازمی جزو ہو گئے ہیں:
’’ایک بار میں اور بشکویونہی چپکے سے آئے اور بابا یارو کے پاس ایک چارپائی پر بیٹھ گئے۔ بابا یارو اپنی رسیاں بٹنے میں مگن رہا ‘ مائی بیگاں چولہے میں پھونکیں مارتی رہیں اور رنگی ٹوکے سے چارہ کترتی رہی ‘کسی کو پتہ ہی نہ چلا۔ پھر جب انہیں پتہ چلا تو بابا یارو اتنا شرمندہ ہوا کہ کچھ کہہ ہی نہ سکا۔ منہ سے بس پھب پھب کرکے رہ گیا ۔ مائی بیگاں اپنے بڑھاپے کو گالیاں دیتی رہی اور رنگی تو اتنا ہنسی کہ جب بابا کی پھٹکار پر بھی اس کی ہنسی رکنے میں نہ آئی تو وہ اندر کوٹھے میں بھاگ گئی۔‘‘
(افسانہ’’لارنس آف تھلیبیا‘‘/احمد ندیم قاسمی)
اسی طرح قاسمی کے ایک اور افسانے ’’کنجری‘‘ میں کرداروں کا تعارف کراتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ کمالاں کا دادا سہراب خان پچاس کے پیٹے میں پہنچا تھا تو ملتان کی ایک مشہور طوائف زرتاج کو بیوی بنالایاتھا۔ گاؤں والے اس بارے میں بے خبر تھے کہ زرتاج کوٹھے والی تھی تاہم زرتاج کے ہاں سرور کی پیدائش کے موقعے پرموجود دایہ نے اسے پہچان لیا کہ یہ تو وہی ملتان والی کنجری تاجی تھی۔ بس پھر کیا تھا ایک لفظ سارے گاؤں میں گونج گیا۔ قاسمی نے جس طرح سہراب خان کو گاؤں سے نکل بھاگنے پر مجبور کیا ہے اس میں کہانی اپنی حقیقی رفتار سے چلی ہے ‘کردار اپنی شباہت بناتے چلے گئے ہیں اور دیہی زندگی کا چلن بھی پوری طرح اجاگر ہو گیا ہے ۔
اب آئیے قاسمی کے افسانوں کے موضوعات کی طرف اور صاحب اس باب میں اس پر دوسری رائے تو ہو ہی نہیں سکتی کہ اس کے ہاں بنیادی قضیہ وہی طبقاتی تضاد بنتا ہے جو ترقی پسندوں کو حد درجہ مرغوب رہا مگر یہ بھی ماننا ہو گا کہ اجتماعیت نگاری اس کا بنیادی مئلہ نہیں رہا اور شاید یہی سبب ہے کہ قاسمی کی ہر کہانی کے کردار بطور فرد بھی اپنی شناخت بناتے ہیں۔ یوں دیکھیں تو قاسمی کے کئی کردار ایک موضوع کو کھولتے اور اجتماعی دکھ بیان کرنے کے جتن کرتے ہوئے ایک انسان کی کہانی بھی بن جاتے ہیں۔ ایک ایسی کہانی جس میں کردارمحض کسی ایک طبقے کے نمائندہ نہیں رہتے کئی ہزار انسانوں کی نمائندہ علامت بن جاتے ہیں ۔ یہ جو میں نے قاسمی کی کہانی کے علامت بن جانے کی بات کی ہے تو اس سے کسی غلط فہمی میں نہیں پڑنا چاہیے کہ قاسمی اس علامت نگاری سے بہت فاصلے پر رہا ہے جس کا چلن لگ بھگ دو دہائیوں کا مقبول فیشن رہا ہے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا تاہم موقع نکل آیا ہے تو کہتا چلوں کہ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ علامت نگاروں کی پسپائی کے بعد علامت نگاری کے امکانات ختم ہوگئے ہیں اور بتاتا چلوں کہ قاسمی کو بھی اس کا احساس تھا جب ہی تواس نے ایک افسانہ نگار خاتون کی کتاب کے دیباچے میں اس کی ایک کہانی کا ذکر کرتے ہوئے ایک مکمل علامت بن جانے کی بات کی تھی ۔اور سچ پوچھیں تواس باب میں یہ بات درست ہے کہ افسانہ اپنے خارج میں مکمل ہو اور اپنے باطنی بہاؤ اور بھید بھنوروں میں کسی بڑی صورت حال کی علامت بن جائے ۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی قاسمی کے افسانوں کے موضوعات کی ‘ اس بارے میں اس کے افسانوں کے مجموعے ’’نیلاپتھر‘‘ کے آغاز میں موجود سطور کی طرف آپ کی توجہ چاہوں گا۔ قاسمی کا کہنا تھا :
’’کسی بھی تخلیق کار کے لیے موضوعات کبھی کمیاب نہیں ہوتے۔ اگر وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے آس پاس موضوعات کم ہو رہے ہیں تو یہ کمی دراصل خود اس کے اندر ہوتی ہے ۔‘‘
(گزارش/نیلاپتھر/احمد ندیم قاسمی)
قاسمی نے یہاں جو’’ کسی بھی تخلیق کار‘‘ کے الفاظ لکھے ہیں تو یقین جانئے اس سے مراد وہی تخلیق کار ہوں گے جو ساری عمر اپنے تخلیقی جذبوں کے ساتھ سچائی سے وابستہ رہتے ہیں ۔ ( میرے قلم نے’’ سچائی‘‘ کی جگہ’’ ایمانداری‘‘ کا لفظ لکھ دیا تھا مگر میرا ماتھا ٹھنکا کہ اس لفظ سے تو کئی بے ایمانوں کی جبینیں شکن آلود ہو سکتی تھیں ‘لہذا اسے ’’سچائی ‘‘سے بدل لیا۔ممکن ہے میری یہ کوشش بھی خام نکلے کہ آج کل مطلق سچ کہیں نہیں ہوتا ۔ صرف اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے جو’’ زمینی سچ‘‘ ہو ۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ زمین پر رینگنے والے سچ کا راستہ اور اس سچ کی زندگی کا مقدر کس طرح متعین کیا جاتا ہے)۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے تخلیق کاروں کی وابستگیاں انہیں محدود موضوعات سے آگے دیکھنے ہی نہیں دیتیں ۔ تاہم قاسمی نے یہ کیا ہے کہ ان حدوں کو توڑا ہے لہذاتخلیق بھی آخری عمر تک اس پر مہربان رہی ہے ۔ میں نے تخمینہ لگایا ہے کہ اس خالص طرز عمل کی وجہ سے اس کے ہاں ایسے افسانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے جن میں کسی خاص نقطہ نظر کی تشریح کرنے کے بجائے کہانی کے اپنے وجود پر اکتفا اور اعتماد کرنے کا چلن اپنایا گیا ہے ۔ اس سے قاسمی کے ہاں موضوعات کی رنگارنگی کا سماں بندھ گیا ہے ۔ کہیں رشتے محترم ہوگئے ہیں تو کہیں خود انسانی وجود‘ کہیں ظالم اس کی نفرت کا نشانہ بنتا ہے تو کہیں وہ رویے جو جہالت کے مظاہر ہو گئے ہیں انہیں رد کیا گیا ہے ۔ عورت کو بھی قاسمی نے بار بار اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے اور ہر بار ‘کم از کم میں نے تو یہی محسوس کیا ہے کہ‘ قاسمی مرد کرداروں کے مقابلے میں عورت کے ساتھ جا کھڑا ہوا ہے ۔
صاحب اوپر میں کچھ افسانوں کو قاسمی کے کامیاب افسانے کہہ آیا ہوں اور کچھ کو اس درجے سے گرادیا ہے تو یقین جانیے ایسا کرتے ہوئے میں نے قاسمی کی افسانہ نگاری کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے دل ہی کے فیصلے کا کہا مانا ہے ۔ میں ان افسانہ نگاروں میں سے نہیں ہوں جو قاسمی کے افسانے کا ذکر آنے پر اسے بہتر شاعر گرداننے لگیں ‘نہ ان شاعروں کو مانتا ہوں جو قاسمی کی شاعری کا ذکر درمیان میں چھوڑ کر اس کے افسانے کا قصیدہ لے بیٹھتے ہیں ۔ ایک سے زیادہ تخلیقی جہات رکھنا میری نظر میں ایک غیر معمولی عطا ہے اور قاسمی غیر معمولی تخلیق کار تھا۔ پھر اس نے جتنی تعداد میں افسانے لکھے یہ بھی کوئی کم غیر معمولی بات نہیں ہے ۔ افسانوں کی اتنی بڑی تعداد میں سب کو ایک معیار کا نہیں کہا جاسکتا اور یہ بات ایسی نہیں ہے جو قاسمی کے قد کو گھٹادے ۔ کسی بڑے افسانہ نگار کے لیے اتنی بات ہی کافی ہوتی ہے کہ اس کے قلم سے چند ایسے فن پارے نکل آئیں ‘جن کے بغیر ذکر کے بغیر فن کی تاریخ نامکمل رہ جاتی ہو۔ تو یوں ہے صاحب کہ وہ افسانے جنہیں میں نے کامیاب کہا انہیں اس یقین کے ساتھ کامیاب مانا بھی ہے کہ ان کے بغیر اردو افسانے کی تاریخ کو مکمل نہیں کہا جا سکتا ۔
***

No comments: