Sunday, February 15, 2009

سعادت حسن منٹو

سورکہیں کے : پاکستان کے
محمد حمید شاہد

انتظار حسین اور آصف فرخی کی مرتبہ وہ کتاب جو ”پاکستانی کہانیاں“ کے نام سے اُدھر ساہتیہ اکادمی دہلی نے چھاپی تھی ‘اُس میں سعادت حسن منٹو کو پاکرہمارے ہندوستانی دوست ‘ معروف فکشن نگار اور وہاں اردو سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے مشرف عالم ذوقی نے اعتراض اٹھایا ہے کہ اے بھائیو ‘ آپ نے منٹو کو پا کستانی کیوں بنا دیا؟ذوقی کے ذہن میں یہ سوال کیوں در آیا ؟ اِدھر کے کئی اور بھی تو ادیب تھے جن کے دل میں پاکستان کانٹے کی طرح کھٹکتا رہاہے اور جن کی نظر میں پاکستان کے الگ وجود کے کوئی معنی بنتے ہی نہیں ہیں‘ ان کے بارے میں ذوقی نے ایسا کیوں نہ کہا؟ ۔ ایک وجہ تو مجھے صاف صاف دِکھتی ہے کہ اس دوسرے گروہ میں برا لکھنے والوں کی اتنی فراوانی ہے کہ اگر ذوقی ان کے بارے میں ایسا کہہ دیتا تو صاحب کون کافر تھا ‘ جس کے ماتھے پر چنٹ بھی پڑتی ۔ فوراً مان لیا جاتا اور کہہ دیا جاتا کہ لو بھائی یہ تمہارا اپنا ملبہ سے جب چاہو اٹھا لو‘ پھر شکرانے کے نوافل ادا کیے جاتے کہ خس کم جہاں پاک ۔ اتنے چھوٹے سے ملک میں اتنابرا اور اُتھلا لکھنے والوں کی بہتات سے دم گھٹنے لگا ہے ‘ بے شک لے لو کہ تمہارا ہندوستان بڑا ملک ہے وہاں ایک سے ایک برا سمایا ہوا ہے ‘ادھر سے مانگا ہواجتھا وہاں بہ سہولت ان کے اندرکھپ سکتا ہے۔ مگر پیارے ذوقی سچ مانو اور یقین رکھو کہ منٹوایسا اچھا اور سچا لکھنے والا پورے بھارت میں نہیں سما سکتا تھا لہذا وہ اُدھر سے اِدھر اٹھ آیا۔ اگر سما سکتا تو اپنے دوست شیام کے سینے میں ہی سما جاتا ‘ شیام نے کیا منٹو کا بندھا اسباب دیکھ کر صرف دل رکھنے کو نہیں پوچھا تھا:” چلے؟“اور اپنے چوڑے سینے سے بھینچ کر اسے رخصت ہونے کو یہ نہیں کہہ دیا تھا :”سور کہیں کے“ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آخر ذوقی کو منٹو کا پاکستانی ہو جاناکیوں سمجھ میں نہیں آیاجب کہ شیام کومنٹو کا بندھا اسباب دیکھتے ہی یہ بات سمجھ میں آگئی تھی ؟.... اس معاملے میں آصف ”دنیا زاد ۔ ۳۱“ میں بجا طور پر برہم ہوا ہے تاہم اس کاذہن اپنے منتخب کردہ افسانوں کی کتاب کے دفاع اور منتخب کردہ افسانوں کے جوازمیں زیادہ الجھا رہا ۔ میں بھی ذوقی کی طرح انتظار اور آصف کے مذکوہ انتخاب سے کوئی زیادہ خوش نہیں ہوں مگر اپنی ناخوشی کی جو وجوہ ذوقی نے بتائی ہیں ان سے اتفاق کرنا بھی میرے لیے ممکن نہیں ہے ۔ میںاس باب میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں جو اسے مرتبین کی اپنی صوابد اوران کے اپنے ذوق کا معاملہ قرار دے کر ایک طرف ہو جاتے ہیں ۔ اچھا ایک بار پھر منٹو کے حوالے سے اٹھائے گئے ذوقی کے سوال کی طرف آتے ہیں اور یہ گمان باندھ لیتے ہیں کہ ذوقی کی نظر سے منٹو کا لکھا ہوا اپنے دوست شیام کا وہ خاکہ نہیں گزرا ہو گا جس اوپر حوالہ آچکا ہے ۔ ذوقی کے مطابق’ منٹو نے ہندوستان میں جنم لیا ‘ ہندوستان میں دھکے کھائے ۔ممبئی اور تب کے ’بامبے‘ کے فلم اسٹوڈیو میں نوکری کی تھی لہذا وہ ہندوستانی ہوا ۔‘ کہا جا سکتا ہے کہ اے صاحب‘ لگ بھگ اسی وزن کی رسوائیاں ہم نے بھی اس کی جھولی میں ڈالی ہیں ۔ اس نے ممبئی میں جنم لیا تھا تو یوں ہے کہ اِدھر وہ ابدی نیند سوتا ہے ‘ انگریزوں کی حکو مت والے ہندوستان میںاسے فحش نگار سمجھا گیا ‘پاکستان میں بھی تو اس کے حصے میں یہی کچھ آیا‘ دھکے اور فحاشی کے مقدمے ۔ لہذا یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی ۔ذوقی کا مزید کہنا ہے کہ:’منٹو کا ”آئرن مین‘ ‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ ’نو مینس لینڈ‘ کے اس طرف جانے میں یقین نہیں رکھتا تھا ۔ پاگل کہے جانے والے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی فکر بھی یہی تھی کہ ”ہندوستانی کون اور پاکستانی کون؟“ شاید یہی فکر منٹو کی بھی رہی ہو۔‘ذوقی نے مضمون توخوب باندھا تھا مگر اِس ’شاید‘ کے لفظ نے اُس کے دل کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ یہ لفظ چغلی کھاتا ہے کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے اُس پر اُسے خود بھی یقین نہیں ہے ۔ کہ اندر کا شک اُس کی تحریر میں در آیا ہے ۔ اب شک کی بُھربُھری بنیاد پر تعمیر ہونے والی عمارت کی پائیداری کا یقین کون کرے گا۔ سچ یہ ہے کہ منٹو وہ تھا ہی نہیں جو ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ تھا اور یہ بات ذوقی بھی اچھی طرح جانتا ہے ۔ جس نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کو پڑھا ہے وہ آگاہ ہے کہ منٹو کے اس افسانے میں پاگلوں کے تبادلے کا فیصلہ تقسیم کے تین سال بعد ہوا تھا جب کہ بشن سنگھ عرف ٹوبہ ٹیک سنگھ کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ سال ہوچکے تھے۔ گویا بشن سنگھ کے پاگل ہونے کا زمانہ لگ بھگ ۴۳۔۳۳۹۱ کا بنتا ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ اس سے بھی چار سال پہلے یعنی ۰۳۹۱ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کے الہ آباد کے جلسے میں اقبال متحدہ اسلامی ریاست کے قیام کا خواب دکھا چکے تھے اور اس سے بھی پہلے یعنی ۰۲۹۱ ءتک قائداعظم کانگریس سے مایوس ہوکر اسے چھوڑ چکے تھے ۔ تقسیم کی طرف لے جانے والے ان جیسے اہم واقعات کے ساتھ بشن سنگھ کے کردار کا کوئی کنارہ تک نہیں ملتا ۔ اب اگر بشن سنگھ عرف ٹوبہ ٹیک سنگھ کے پندرہ سال پہلے پاگل ہوجانے یا قرار دیئے جانے جانے کی کوئی علامتی توجیہہ ممکن نہیں تو اس معاملے میں کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ خود منٹو سے مدد لی جائے۔ منٹو کا اَفسانہ بتاتا ہے :” ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں ۔ اچھا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ دماغ الٹ گیا ۔ اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں داخل کر گئے۔ “یوں طے ہوجاتا ہے کہ افسانے میں بشن سنگھ کے پاگل پن کا جواز ”فرقہ ورانہ فسادات“ سے کسی طورجڑتا ہی نہیں ہے۔ افسانے کے متن میں زیادہ سے زیادہ اس شک کی گنجائش نکلتی ہے کہ اس کے رشتہ داروں نے اس کی زمینیں ہتھیانے کے لیے اُسے پاگل خانے میں داخل کر ادیا ہو گا ورنہ اَفسانہ تو کسی ذہنی دباﺅ کی وجہ سے حواس کھو بیٹھنے کا ذکر کر کے آگے بڑھ جاتا ہے۔ اور ہاں یہ بھی ہے کہ وہ سچ مچ کا پاگل تھا جب ہی تو ہر مہینے ایک ایک انگلی بڑھتی اپنی جوان ہو چکی بیٹی روپ کو ر کو بھی پہچان نہ پاتا تھا ۔ بشن سنگھ اور اس جیسے دوسرے پاگلوں کو سامنے رکھ کر فتح محمد ملک نے اپنے مضمون ”ٹوبہ ٹیک سنگھ: ایک نئی تعبیر“ میں بجا طور پر لکھا ہے :’ ’پاکستان کا قیام بھلا پاگلوں کی سمجھ میں کیوں کر آسکتا تھا“لہذا ذوقی جیسے پیارو جان لو کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ نے ’نو مینس لینڈ ‘ میں مر کر وہی کیا جو ایک پاگل کر سکتا تھا اور منٹو کو وہ لکیر پھاند کر اِدھر آنا پڑا کہ ُاس کے شعور نے اُسے یہی سجھایا تھا ۔ذوقی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’منٹو کی کہانی ” کھول دو“ بھی اُس کے پاکستانی نہ ہونے کی روداد سناتی ہے۔ میں ذوقی کے اس دعوی کو یوں باطل سمجھتا ہوں کہ یہی کہانی مجھے اُس کے پاکستانی ہونے کی کہانی سناتی ہے ۔ پاکستان آنے کے بعد منٹو نے جو دو پہلی کہانیاں لکھیں ان میں ”کھول دو“ شامل ہے ۔ ذوقی نے دوسری کہانی کا نام نہیں لیا ‘میں لیے دیتا ہوں ....” ٹھنڈا گوشت“ ۔ ترتیب میں یہ منٹو کی پہلی پاکستانی کہانی بنتی ہے ۔ اس کہانی کا ’گرم سکھ ‘ کیسے ’ٹھنڈا‘ ہوگیا تھا ۔ کلونت کور جیسی عورت اُس کے سامنے کیوں بے بس ہوگئی۔جب ہنگامے ہوئے اورلوٹ مچی‘ ایشرسنگھ نے ایک گھر میں گھس کر چھ مردوں کو مار ڈالا اور جوان سال خوب صورت لڑکی کو کندھے پر اٹھا لایا تو وہ اس کے کندھے پر وہ لڑکی خود بخود کیسے مر گئی تھی ۔ میں جتنا غور کرتا ہوں ‘ اتنا ہی ساری صورت حال میرے اندر آئینہ ہوتی جاتی ہے۔ جہاں یہ اَفسانہ میرے اندر فسادیوں اور لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف نفرت اُبھارتا ہے ‘وہیں مجھے ایک حساس پاکستانی سے بھی ملاتا ہے۔ ایسا پاکستانی جو فسادات اور قتل وغارت گری کو نفرت اور دُکھ سے دیکھتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنے خوابوں کی سرزمین کی طرف دیکھنے والوں کے ساتھ ایسا ہوتا ۔ ذوقی ادھر دھیان دیتا تو یہی اَفسانہ اسے منٹو کے ہندوستانی نہ رہنے کی داستان بھی سنا دیتا ۔ یہ وہ اَفسانہ ہے جسے قاسمی نے یہ کہہ کر چھاپنے سے انکار کر دیا تھا:” منٹو صاحب ‘ معاف کیجئے ‘ اَفسانہ بہت اچھا ہے لیکن نقوش کے لیے بہت گرم ہے “لہذا منٹو نے نقوش کے لیے دوسرا اَفسانہ لکھا.... مجھے کہنے دیجئے کہ....اپنا دوسرا پاکستانی اَفسانہ .... ’ ’ کھول دو“۔ اور یہ وہی فسانہ ہے جو ذوقی کو مغالطے میں ڈالتا ہے ۔ ”کھول دو“ کو سمجھنے کے لیے قیام پاکستان کے بعد کے بدلے ہوئے منٹو کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ میں اُس تبدیلی کی بات کر رہا ہوں جو حسن عسکری کو بھی نظر آ گئی تھی اور ممتاز شیریں کو بھی .... مگر حیف کہ ایک ذوقی کو نظر نہیں آتی۔منٹونے ”زحمت مہر درخشاں“ میںلکھا تھا کہ پاکستان آنے کے بعد یہ الجھن پیدا کرنے والا سوال اس کے ذہن میں گونجتا رہا:” کیا پاکستان کا ادب علیحدا ہوگا۔ اگر ہوگا تو کیسے ۔ وہ سب کچھ جو سالم ہندوستان میں لکھا گیا ‘اس کا مالک کون ہے۔ کیا اس کو بھی تقسیم کیا جائے گا۔ کیا ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے بنیادی مسائل ایک جیسے نہیں ۔ کیا ادھر اردو بالکل ناپید ہو جائے گی۔ یہاں پاکستان میں اردو کیا شکل اختیار کرے گی ۔ کیا ہماری اسٹیٹ مذہبی اسٹیٹ ہے ۔ اسٹیٹ کے تو ہم ہرحالت میں وفادار رہیں گے ‘ مگر کیا حکومت پر نکتہ چینی کی اجازت ہوگی “....اور....” آزاد ہو کر کیا یہاں کے حالات فرنگی عہد حکومت کے حالات سے مختلف ہوں گے“اب مجھے ایک دفعہ پھر روئے سخن ذوقی کی جانب کرنا ہے اور اُس کے دل سے پو چھنا ہے کہ اے پیارے‘ خدا لگتی کہو ‘ پاکستان بننے کے بعد‘ پاکستان کے حوالے سے‘ دل سے پاکستانی بنے بغیر اتنے بنیادی سوالات کیا منٹو کے تخلیقی وجود کا حصہ ہو سکتے تھے ؟۔ تو یوں ہے کہ منٹو پاکستان آیا اور پاکستان کا وفادار ہو گیا ۔ وہ تقسیم سے پہلے تقسیم کا مخالف تھا.... مانتا ہوں ضرور تھامگرجب وہ یہاں آیا تو اُس کے یہاں بہت اُجلے خوابوں نے ڈیرے ڈال دیے تھے جہاں جہاں اسے ٹیڑھ نظر آیا وہاں وہاں اس نے بھر پور چوٹ لگائی ۔ اَفسانہ ”کھول دو“ بھی ایسی ہی شدیدچوٹ ہے۔ ایک سچے پاکستانی کی اُس معاشرتی روےے پر بے رحم چوٹ جس نے ہمارے سنہرے خوابوں کو گدلا دیا تھا ۔ ذوقی نے یہ بھی لکھا ہے :’منٹو بے چارہ.... ۷۴ کی تقسیم کے بعد ۸۴ میں پاکستان گیا وہ بھی اپنی بیوی کے زور دینے پر اور ۵۵ میں اس کی موت ہوگئی‘ذوقی اس طرح منٹو کو ”بے چارہ“ لکھ کر اور ایک ہی جملے میں اسے پاکستان پہنچا اور مار کر اُس سے اُس کی پاکستانیت نہیں چھین سکے گا کہ ِاس باب میںمنٹو بہت کچھ کہہ کر مرا ہے ۔یہ اس کے افسانوں میں بھی موجود ہے اور اس کی دوسری نثری تحریروں میں بھی ۔ منٹو کے دوست کے حوالے سے جس تحریر کا اوپر میں ذکر کر آیا ہوں اُسی میں بتایا گیا ہے کہ تقسیم کے ہنگاموں کے دوران ایک مرتبہ منٹو نے اپنے دوست شیام سے پوچھا تھا:” میں مسلمان ہوں ‘ کیا تمہارا جی نہیں نہیں چاہتا کہ مجھے قتل کردو“ شیام نے سنجیدگی سے جواب دیا تھا:” اِس وقت نہیں .... لیکن اُس وقت جب کہ میں مسلمانوں کے ڈھائے ہوئے مظالم کی داستان سن رہا تھا.... میں تمہیں قتل کر سکتا تھا“ منٹو نے یہ سنا تو اس کے دل کو بہت دھچکا لگا تھا ۔ جب ہندو اور مسلمان دھڑا دھڑ مارے جارہے تھے تو شیام جیسے دوست کا”اِس وقت‘ ‘ کبھی بھی ”اُس وقت“ بن سکتا تھا۔ منٹو نے بعد غور کیا ....پھر فیصلہ کیا ‘ بیوی کے اصرار پر نہیں خود فیصلہ کیا اور اپنا اسباب باندھ لیا ۔ شیام نے منٹو کو روکا نہیں ‘ بندھا سامان دیکھ کر صرف اتنا کہا ”چلے “ اور منٹو کے ”ہاں“ کہنے پر اسے کو ئی حیرت نہیں ہوئی اس نے سامان بندھوانے میںمنٹو کا ہاتھ بٹایا‘ برانڈی کی بوتل نکالی ‘دوپیگ بنائے اور کہا ”ہپ ٹلا“ پھر قہقہے لگا کر سینے سے لگایااور کہا ”سور کہیں کے“منٹو نے آنسووں کو روکا اور جواب دیا” پاکستان کے“.... اور.... سیدھا اپنے ملک پاکستان چلا آیا۔٭٭٭

No comments: