Saturday, February 14, 2009

شبنم شکیل

شبنم شکیل کے افسانوں کی عورت
محمد حمید شاہد
شمس الرحمن فاروقی نے اپنے متنازعہ مضامین میں بڑی صنف سخن کی نشانی یہ بتائی تھی کہ’ وہ ہمہ وقت تبدیلیوں کی متحمل ہو سکتی ہے‘ اور اس کسوٹی پر افسانے کو پرکھتے ہوئے فیصلہ سنا دیا تھا کہ :
٭....افسانے کی چھوٹائی یہی ہے ۔ اس میں اتنی جگہ نہیں ہے کہ نئے تجربات ہو سکیں ‘ ایک آدھ بار تھوڑا بہت تلاطم ہوا اور بس
٭....افسانے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کا بیانیہ کردار پوری طرح بدلا نہیں جا سکتا۔
٭....افسانہ ایک معمولی صنف سخن ہے اور علی الخصوص شاعری کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا
٭....افسانے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس کا بیانیہ کردار پوری طرح بدلا نہیں جا سکتا

٭....تاریخ کم بخت تو یہی بتاتی ہے کہ کوئی شخص صرف و محض افسانہ نگاری کے بانس پر چڑھ کر بڑا ادیب نہیں بن سکا ہے ۔

” افسانے کی حمایت میں “”کم بخت تاریخ“ واقعی بڑی عیار اور چالباز ہے ‘بظاہر کچھ کہتی ہے بہ باطن کچھ اور فیصلے صادر کردیتی ہے۔مگر ساتھ ہی ساتھ ہے کہہ مکرنی ‘جو ظاہر کرتی ہے اس کے اندر ہی کہیں اس پہیلی کا جواب بھی چھپا ہوتا ہے ۔ اسی’ کم بخت ‘کا فیصلہ ہے کہ شاعر نثّار اور نقاد فاروقی کے ہم پلہ فکشن نگار فاروقی کب کا ہو چکا اب تو وہ قدم آگے نکالتا ہے اور اپنی شاعری سے بڑھ کر تو قیر‘ برتری اور قبولیت اسی ناس مارے افسانے اور ناول کے سبب پاتا ہے ۔ صاحب !جسے عمر بھر آپ اصناف پر حکمرانی کے لائق گردانتے رہے ‘ اسے سب اصناف سے اعلی واولی قرار دیتے رہے ‘ اس میں حوصلہ تھا‘ نہ تڑ‘ کہ ُان تخلیقی تجربوں کو سہار سکتی جو اس کمزور‘ معمولی اور نہ بدلنے والی صنف نے کمال ہمت سے اور اپنے بھیتر کے دائروں اور بھنوروں کو بدل کر سہار لیے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے فاروقی صاحب اسلام آباد آئے تو میں نے نہایت ادب سے گزارش کی تھی کہ اصل قضیہ تخلیقیت ہے‘ شاعری یا نثر کی اصناف میں درجے بندی نہیں ۔ اور یہاں بھی یہی دہرانا ہے کہ ہر صنف کا اپنا پنا علاقہ ہوتا ہے ۔ اس علاقے کے اند ر رہ کر تخلیقی تجربے کی خوبی یا خامی کے اندازے لگائے جا سکتے ہیں اور لگانے بھی چاہیئں۔ نثر اور شاعری کی اصناف کے بیچ مقابلہ اور تفریق تو الگ رہی میں تو شاعری کے مختلف اصناف میں اس قسم کا موازنہ بھی موزوں نہیں سمجھتا۔ اوہ بات کہیں اور نکلے جاتی ہے حالاں کہ مجھے شبنم شکیل کے افسانوں کے پہلے مجموعے ” نہ قفس نہ آشیانہ“ پر بات کرنی ہے ۔ میرے بہکنے کی وجہ شبنم شکیل کا شاعری میں شناخت بنانے کے بعد افسانے کی طرف لپکنا ہے اور اس بات کا لطف لیجئے کہ گزشتہ قریب ترین زمانے میں کئی معروف شاعروں اور شاعرات نے شاعری کو اپنے تخلیقی اظہار کا وسیلہ ناکافی جانتے ہوئے ‘اس کوچے میں پوری سنجیدگی اور اخلاص سے قدم رکھ دیئے ہیں ۔ اوہ کم بخت تاریخ تیرے یہ عجیب و غریب فیصلے۔”شب زاد“ اور ”اضطراب“ جیسے مقبول عام شعری مجموعوں کے بعد شاعرہ شبنم شکیل نے افسانہ نگار بنتے ہوئے اس زبان سے کوئی علاقہ نہیں رکھا جو غزل گو عموماُ نثر لکھتے ہوئے اپنا چلن بنا لیا کرتے ہیں ۔ نہ ہی اس نے شاعری سے مرعوب ان نثر نگاروں کی تقلید کی ہے جو دو دہائی پہلے سے فکشن کی نثر میں شاعرانہ رموزوعلائم برتنے کو خوبی گمان کرتے رہے ۔ رواں ‘سادہ ‘ خط مستقیم میں چلتی شبنم کی نثر میں نئی اور تخلیقی فکشن کے بھید بھاﺅ بھی کوئی بار نہیں پاتے کہ اس نے اپنا سارا دھیان کہانی کہہ دینے کی طرف مبذول رکھا ہے ۔ میں ڈاکٹر سلیم اختر جتنا حوصلہ تو نہیں رکھتا ہوں کہ ان افسانوں کی بنیاد پر انہیں” تخلیقی رمز شناسی میں منفرد“ کہہ دوں کہ شبنم کے ہاں شاعری کا تجربہ تخلیقی تجربے کے حوالے ان کی افسانہ نگاری سے کوسوں ‘ قرنوں آگے اور بہت زیادہ لائق توجہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں تخلیق کار شبنم کو سمجھنے کے لیے بہرحال اس کی شاعری ہی کو پڑھا جانا چاہیے ۔ ”نہ قفس نہ آشیانہ“( کاش اس نام میں صرف ایک یعنی وسط والی ”نہ“ سے کام چلا لیا جاتا‘ مگر ایسے کیوں کیا جاتا کہ اقبال نے بھی تو یوں ہی لکھا تھا) کے آغاز میں شبنم نے لکھا ہے کہ :” تجربات اور مشاہدات کے حوالے سے میں نے ایک بھر پور زندگی گزاری ہے ۔ دل چاہتا ہے کہ ان سب واقعات کو دوسروں سے شیئر کروں مگر ان میں سے کچھ ایسے تھے کہ انہیں بیان کرنے سے ان کی بے وقعتی کا اندیشہ تھا اور کچھ ایسی کہ جن کا تقدس متقاضی تھا کہ اسے پامال نہ کیا جائے ۔ “شبنم نے زندگی کے بھر پور تجربات کے بیان کے لیے ان دو مجبوریوں کے باوصف یہ صورت نکالی ہے کہ ٭.... ”چنانچہ میں نے چند واقعات کا انتخاب کیا اور انہیں افسانے کی شکل دے دی۔“٭.... ”ایسی صورت میں ان واقعات میں کچھ تبدیلیاں ناگزیر تھیں اور جائز بھی۔“اس اعترافی بیان نے ‘کہ جسے خود شبنم شکیل نے ” عذر گناہ“ قرار دیا ہے‘ مجھے اس کے افسانوں سے زیادہ قریب کر دیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ فکشن‘ ہوچکے واقعات اور حادثات کا عین مین بیان نہیں ہے ۔ کا میاب فکشن نگار اس میں فکشن کے سچ کو حاوی ہونے دیتا ہے جو زندگی کے عام تجربے سے کہیں بڑھ کر عمیق ‘ وسیع اور بامعنی ہوتا ہے اور یہی وہ کٹھالی ہے جس میں فکشن کا سچ نکھرتا اور نتھر تا ہے۔ اپنی زندگی پر بیتے واقعات سے جذباتی اور نفسیاتی وابستگی کو پچھاڑ کر صرف ان واقعات کا انتخاب‘ جن میں اس کا تخلیقی جوہر اپنی کارکردگی دکھا سکے فکشن نگار کا پہلا امتحان ہوتا ہے ۔ شبنم شکیل اس سے بخوبی آگاہ ہے ۔ یہی سبب ہے کہ افسانے پڑھتے ہوئے اس کا یہی ”عذر گناہ“ اس کے تخلیقی تجربے کے اخلاص کی گواہی بن گیا ہے ۔ اس مجموعے میں کل گیارہ کہانیاں شامل ہیں یہ گیارہ کہانیاں گیارہ عورتوں کی بجائے ایک ہزار گیارہ عورتوں کی کہانیاں ہو گئی ہیں ۔ یہ جو میں نے عورتوں کی کہانیاں لکھ دیا ہے تو خدارایہ مت سمجھئے گا کہ میں نے ان افسانوں کو عورتوں کے الگ ڈبے میں چڑھا دیا ہے ۔ یقین جانئے ان کہانیوں کا’ نو دو گیارہ عورتیں اوراتنی ہی کہانیاں ‘والا معاملہ بھی نہیں ہے ۔ پھر بھی انہیں عورتوں سے وابستہ کرنے کی ایک معقول وجہ ہے اور وہ ہے عورت کی زندگی کا انتہائی باریک بینی اور خلوص سے مطالعہ ۔ میں جس شاعرہ شبنم شکیل کو جانتا ہوں اس کے ہاںطبقہ نسواں کی طرف سے بولتے اشعار ڈھونڈے سے مل جاتے ہیں‘ ضرور مل جاتے ہیں ‘ مثلاً ایسے :بنت ِحوا کسی چہرے سے نہ دھوکا کھائے کینچلی سانپ بدلتا ہے نئی آپ ہی آپ=دیکھی ہیں میں نے ایسی بھی دکھیا سہاگنیں بیاہی ہیں اور مانگ میں سیندور بھی نہیں =پریوں جیسی صورت والی بیٹھی راہ تکے زر بھی مانگے ساتھ میں لیکن شہزادہ گلفام یا پھر ایسے اشعار بھی مل جائیں گے برسوں سے جس مکاں میں میری بودو باش ہے اب کیا یہ لازمی ہے ‘ وہی میرا گھر بھی ہو مگر اس سب کے باوصف میرا اب بھی اصرار ہے کہ” معروف“ فیمینسٹ شعور کی شاعری شبنم شکیل کی اصل شناخت نہیں ۔ وہ اپنی شاعری میں کہیں بھی مرد ذات کی نہ تو نفرت میں مبتلا نظر آتی ہے ‘ نہ ثقافتی و سماجی ڈھانچے کو تو ڑ کی کلی آزادی کی بات کرتی ہے اور نہ ہی مرد سے گریزاںہے ۔ یہی سبب ہے کہ اس کی شاعری ‘مشرق کی ایک حساس اور باوقار بیٹی کی شاعری دِکھتی ہے ۔ شبنم کے افسانوں کی عورتیں بھی مردوں کو نہیں لتاڑتیں اپنے ہی طبقے کی بہتر تفہیم کی صورت دکھاتی ہیں ۔ مثلا ً دیکھئے کہ اس مجموعے کے پہلے افسانے ” ایک سیارے کے لوگ“ میں ایک مرد موجود ہے ۔ ایک ماسٹر جو امتحان میں لڑکوں کو نقل کراتا پکڑا گیا اور معطل ہو گیا ۔ اس مرد کے کرتوت ایسے ہیں کہ اس کی بنیاد پر اس قبیل کے مردوں کے بہ سہولت پرخچے اڑائے جا سکتے تھے ‘ مگر ایسا ہوتا نہیں ہے ۔ یہ کہانی ایسے مرد کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال میں دو عورتوں (سوکنوں)کو رکھ کر دیکھتی ہے ۔ ایک گھر کی مالکن کہ پہلے سے موجود ہے اور اختیار رکھتی ہے ‘ دوسری اوپر سے زندگی میں حصہ دار بن کر آنے والی مگر ہر حصے سے محروم۔ ایک جس کی ماسٹر خوشامد کرتا ہے کہ اسے گھر میں سکون چاہیے اور دوسری وہ جسے لات مار کر کتیا کہتا ہے مگر رات چھپ چھپاکر اس کے پاس پہنچ جاتا ہے کہ اولاد بھی چاہیے ۔ ایک اونتر نکھتر ‘دوسری بھرے پیٹ والی ۔ دونوں کے بیچ ایک تناﺅ ہے مگر دونوں کیسے ایک ہو جاتی ہیں کہانی عورت کی اسی نفسیات کو کھولتی ہے ۔”لال دیدی“ کی کہانی کا مرد بھی قابل گردن زدنی ہے مگر کہانی کے مرکزے سے عورت کا یہ مطالعہ برآمد ہوتا ہے کہ سہولیات اور آسائشوں کی عادت اسے گھر بچانے کی خاطر ہر قسم کا ظلم سہنے کا حوصلہ رکھنے والی لال دیدی سے بہت پست کر دیتے ہے ۔ اس کہانی کی عطیہ بجا کہ لال دیدی نہیں بننا چاہتی مگر بن کیا جاتی ہے آسائشوں کے عوض اپنی خودداری اورعزت نفس قتل کردینے والی۔ کہاں اپنے گھر کی کائنات بچانے کا جتن کرنے والی لال دیدی اور کہاں آسائشوں کو کلاوے ڈالتی عطیہ .... تو یہ بھی عورت ہی کے روپ ہیں ۔”وہ دو گھنٹے“ کی زرینہ بیگم ‘شبنم شکیل کی کہانی میں آنے تک کچھ فر بہی ہو چکی تھی اور آخر میں پہنچتے پہنچتے اتنی بے بس اور لاچار کہ آنسو نکل آتے ہیں مگر ایک وقت تھا کہ اس نے کئی مرد دیکھے اور بہت دولت سمیٹی تھی ۔ مردوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوکر گھر بسائے رکھنے پر لعنت بھیجنے والی زرینہ بیگم جب اپنی بیٹی سعیدہ کی طرح دوسری بیٹی صفورہ کو اجڑنے سے بچا لینے کے لیے چیک پر دستخط کر رہی تھی تو یہ خالص عورت ہی کی کہانی بن گئی تھی ۔ ”گہن“ کی بیٹوں کے باپ کی کہانی بڑی منہ زور نکلی کہ خود ہی کہانی کے متن سے نکل کر قاری کا رستہ روک لیتی ہے مگر شبنم کی توجہ اس سے کہیں زیادہ ‘مری ماں اور نکھٹو باپ کی گھر سے بھاگ جانے بیٹی یا پھر پیچھے رہ جانے والی لنگڑی نغمانہ پاتی ہے ۔ ” دوسری ہجرت“ کے شاہ جی کہانی میں اپنی مکمل قامت دکھاتے ہیں حتی کہ آخر تک آتے آتے طوائف کا بیٹا بھی ٹیکسی سے ٹکریں مار کر احتجاج کرتے ہوئے توجہ پا لیتا ہے مگر یہ کہانی پھر بھی کوٹھے والی دلشاد ‘ یعنی ایک عورت ہی کی رہتی ہے ۔ ”سمجھوتا “ میں ایک ماں کے دل کو ٹٹولا گیا ہے جو ممتا کے ہاتھوں بلوچ سردار کو بھائی کہہ کر اس سے اپنے معصوم بچوں کے لیے امان لے لیتی ہے ۔ ” اگر نامہ بر ملے “ کی شادی شدہ عورت بھی خوفزدہ ہے وہ بھی سمجھوتا چاہتی ہے مگر جس سے سمجھوتا کرنے جا رہی ہے وہ چھلاوے کی طرح غائب ہو گیا ہے ۔ ”ناپاک“ نو دس برس کے گول مٹول سرخ و سفید افغانی بچے ‘ پانچ نمبر کوٹھی کے چوکیدار یا پھر محافظ سے مجرم بن جانے والی پولیس کی کہانی بہت سہولت سے بنائی جاسکتی تھی مگر جہاں کھڑے ہو کر شبنم نے اس سانحے کو دیکھا ہے وہاں سے یہ پچیس چھبیس برسکی لمبے قد والی عورت کی کہانی ہو گئی ہے جو چوکیدار کے ہاتھوں رسوا ہونے سے بچنے کے لیے اسے قتل کر کے تھانے پہنچ گئی تھی ۔ مگر وہاں بھی لٹ گئی تو خود کو مار ڈالنا چاہا کہ اس کے سوا اسے سارے راستے مسدود لگنے لگے تھے ۔ ”ناپاک“ کی عورت جتنی لاچار ہے اس سے اگلی کہانی ”سودا“ کی عورت اتنی ہی سفاک ۔ خوب صورت بچے جن کر بیچ دینے والی ۔”لیکن نہیں خواہاں کوئی“ کی کہانی میں اگرچہ ایک ایساکرنل ہے جو سب ہی حدیں توڑ ڈالتا ہے اور اپنی ہی نسل کو تباہی سے دوچار کردیتا ہے مگر اس افسانے میں بھی یہ قرینہ رکھا گیا ہے کہ اس کی کہانی کرنل کی رکھیل نازی کے گرد گھومتی چلی جائے۔ یوں آپ نے دیکھا کہ شبنم شکیل نے بے شک عورت کی کہانیاں لکھی ہیں مگر کہیں بھی عورت کو عورت ہونے کے ناطے رعایتی نمبر نہیں دئےے نہ ہی اس اہتمام میں جتی رہی کہ مردوں کو برا بھلا کہنے کے لیے مواقع پیدا کرتی رہے۔آخر میں اس افسانے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کے سبب میں شبنم شکیل کو ایک افسانہ نگار ماننے پر مجبور ہوا ہوں اور شاید یہی وہ افسانہ ہے جس کی وجہ سے میرے دل میں خواہش جاگی ہے کہ شبنم کو اور بھی افسانے لکھنے چاہئیں ۔ وہ جو میں نے شروع میں کہا تھا کہ شبنم کی شاعری اس کی فکشن سے بہت آگے اور بہت توانا ہے ‘ اس افسانے کو سامنے رکھوں تو میں توقع رکھ سکتا ہوں کہ اگر اس افسانے کو نقطہ آغاز مان کر آئندہ کا سفر جاری رکھا گیا تو اس کی فکشن نگاری بھی ایک روز اتنی ہی توانا ہو جائے گی ۔ اس افسانے کہ جس کا عنوان ” صلیب“ جمایا گیا ہے ‘میں کہانی بہت متوازن ہے اور پہلی سطر سے آخر تک اسے سلیقے سے بنا گیا ہے۔ مسٹر اور مسز جوزف کے کردار ہوں یا نثار اور میری کے ایک کرسچین فیملی کے گھر کا ماحول ہو یا خوف زدہ لڑکی کا حریصانہ نظروں کے درمیان بازار سے گزرنے کا منظر‘ مکالمے ہوں یا رواں بیانیہ شبنم کا قلم اتنی مہارت سے چلا ہے کہ لطف آگیا ہے ۔ امید کی جانے چاہئے کہ وہ اس افسانے کو آغاز مان کر اس میدان میں بھی بہت آگے تک جائے گی ۔ ٭٭٭

No comments: