Sunday, February 15, 2009

خالدہ حسین

خالدہ حسین کا ناول “ کاغذی گھاٹ ” اور پوری عورت
محمد حمید شاہد


خالدہ حسین کا ناول ”کاغذی گھاٹ“پڑھتے ہوئے مجھے رہ رہ کر وہ تقریب یاد آرہی تھی جو ایک معروف مصور کی نجی گیلری میں ہو ئی تھی۔جب میں اس تقریب میں پہنچا تھا تو باہر کی کسی یونیورسٹی میں خالدہ کی افسانہ نگاری پر مقالہ لکھنے والی خاتون‘ عورت کے پورے وجود کی بات کررہی تھی ایساوجود جس کے کندھوں پر سر بھی تھا ۔ یہ تقریب ایک ویمن ایکٹی وسٹ ادیبہ نے منعقد کرائی تھی اور اس بات کا خاص اہتمام کیا تھا کہ اس میں ادیب کم اور قدرے رکھ رکھاﺅوالی سوسائٹی کے باذوق اور ادب سے محبت سے کہیں زیادہ سرپرستی کا رشتہ ظاہرکرنے والے مردوزن کثرت سے شرکت فرما ئیں۔ مجھے تو وہاں از راہ عنایت بلا لیا گیا تھا ۔ مگر میرے ساتھ سانحہ یہ ہوا کہ میں خالدہ کے افسانوں میں پوری طرح موجود مکمل عورت کے اس بھرپور تذکرے کے ابتدائی جملے ہی سن پایا تھا کہ میری توجہ اُچٹ گئی۔ میں مسلسل دیواروں پر آویزاں ان فن پاروں کو دیکھ رہا تھا جن میں عورت کا بدن اپنی دلکش گولائیوں ‘ڈھلوانوں ‘اُبھاروںاور کوسوں کے ساتھ موجود تھا مگر کسی بھی تصویر میں عورت کے بدن پر لباس اور کندھوں پر سر نہیں تھا ۔صاحب‘ آپ مجھ پر پھبتی کس سکتے ہیں کہ ہو نہ ہو یہ ننگا پن میرے اندر ہے تبھی تو ان شاہ پاروں میں مجھے عورت ننگی نظر آئی ورنہ مصور نے تو اپنے فن کا کمال دکھایا تھا صرف چند لکیروں میں عورت کا پورا حسن دکھا دیا....پھر لکیریں ننگی کہاں ہوتی ہیں .... اور ایک سر ہی تو نہیں تھا۔ ایک سر ‘ لگ بھگ ہر تصویر میں اضافی ہوگیا تھا ‘ جہاں سر ہونا چاہیے تھا وہاں سے کینوس ختم ہوگیا تھا۔خالدہ حسین کا ناول ”کاغذی گھاٹ“ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے کینوس ختم ہو گیا تھا‘ جہاں کہیں سے فکری غذا پانے والی ترقی پسندی ختم ہو جاتی ہے‘ جہاں لایعنی جدیدیت بھی ختم ہو جاتی ہے ۔ممکن ہے تصویر والی عورت کی بات ادھوری رہ گئی ہو۔ ممکن کیا‘ ایسا ہو چکا ہے‘ جہاں میری بات میں عورت کے وجود سے وابستہ لذت کو داخل ہونا چاہیے تھا وہاں کوسوں کمانوں سے میں برگشتہ ہو گیا ہوں ....اتنا برگشتہ کہ اپنی اس حرکت پر میں تو باقاعدہ جھینپنے لگا ہوں۔میرے اندر کئی بار پڑھے ہوئے یہ جملے گونج رہے ہیں کہ کرہ ارض پر سب سے حسین عورت کا بدن ہوتا ہے ۔ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ رنگ بولتے ہیں‘رنگ گونجتے ہیں ‘رنگ اچھلتے ہیں ‘ رنگ اچھالتے ہیں ۔رنگ ہماری تصویروں کو جاذب نظر بناتے ہیں اور ہماری تحریروں میں لذت بھر دیتے ہیں ۔ میںرنگ رس اچھالتے جملوں کی گونج سنتا ہوں اور ادبدا کر خالدہ حسین کے ”کاغذی گھاٹ “کی طرف متوجہ ہوجاتا ہوں جہاں عورت ہے مگر لذت نہیں ہے اس کا خوب صورت بدن ہے مگر اس کا سر بھی سلامت ہے ۔ لیکن ٹھہریے صاحب شاید میں اپنی بات درست طور پر شروع نہیں کر پایا اور مجھے خدشہ ہونے لگا ہے کہ اب تک آپ یہ گمان باندھ بیٹھے ہوں گے کہ عورتوں کے بارے میں یہ ایک عورت کا لکھا ہوا ناول ہے ۔مجھے عین آغاز میں بتا دینا چاہیئے کہ یہ خیال ہی گمراہ کن ہے ۔جی ہاں میں ایسا کہہ رہاہوں .... اس کے باوجود کہ اس میں کئی عورتیں ہیں ۔ عورتیں کم اور عورت گھاٹ اترنے والی لڑکیاں زیادہ ۔اس میں مونا ہے جس کے وسیلے سے ہم اس کہانی کے باطن میں جھانک سکتے ہیں۔ کہانیاں لکھنے والی ‘بہت سوچنے والی اور بہت ہی زیادہ کڑھنے والی مونا ‘جسے آخر کار ایک تکلیف دہ مستقبل کے سامنے جا کھڑا ہونا ہے.... ایسے مستقبل کے سامنے ‘جہاں اس کے تخلیقی وجود کو سمجھنے والا کوئی حسن حوصلہ دینے نہیں آئے گا۔ اس میں عائشہ ہے‘ گول گورے چہرے‘ سنہری آنکھوں اور سنہری بالوں والی۔ جو ناول کے آغاز میںکَسی ہوئی چٹیا میں پراندہ ڈالے داخل ہوتی ہے ‘ بھرے بھرے سرخ ہونٹوں سے کتارا کھاتے ہوئے ۔ اور پھر انتہائی کوشش سے وہ مقام حاصل کرلیتی ہے جس کی کم وبیش ہر لڑکی کو تمنا ہوتی ہے ۔ پھولوں ایسی تروتازہ لڑکی کے اس دل خوش کن انجام پر ناول نہیں رکتا اور حسیب کا وہ تکلیف دہ روپ دکھاتا جس سے مرد ذات سے نفرت پڑھنے والوں پر لازم ٹھہرتی ہے ۔اس میں آپا نور ہے ۔یہ بھی گوری چٹی ہے اس کے بال بھی سنہری ہیں ۔دھان پان سی لڑکی ‘ نہر میں مچھلی کی طرح تیرنے والی....بڑے مزے سے کپڑوں سمیت نہر پار کرنے والی۔ آپا نور جو اپنے بے پناہ حسن کے وجہ سے بے شمار حماقتیں کرتی ہے ۔اس ناول میں روشنی بن کرطلوع ہوتی ہے‘ یوں کہ متن جگمگانے لگتا ہے مگر جلد ہی پہلے سے کنبہ رکھنے والے مختار کے ساتھ شٹل کاک برقعے میں رخصت ہوجاتی ہے ۔رخصت کہاں ہوتی ہے ‘ناول کے آخر میں وہ انجام دکھانے آتی ہے جس سے ناول نگار نے اُسے دوچار کرنا تھا۔ اب کی بار خوب صورت آپا نور ‘ خوب صورت نہیں رہتی ‘اُس کا چہرہ سانولا اور مرجھایا ہوا ہے‘ کھچڑی بال برقعے سے باہر جھانک رہے ہیں۔دانت چھدرے ہوگئے ہیں اور پیٹ پھولا ہوا ہے۔ لیجئے ایک مرتبہ پھر مرد پر تھوکنے کا موقع نکل آیا ہے۔اس ناول میں کراچی سے پنجاب یونیورسٹی کے طلباءکے لئے چوڑیوں کا تحفہ لانے والی فربہ سی لڑکی شاہجہان بھی ہے یہ بھی گوری چٹی ہے ‘ آنکھوں میں بھر بھر کاجل ‘شعلہ بیان مقرر‘ بولتے بولتے جس کی ناک پر پسینے کے قطرے جھلملانے لگے تھے ‘جس نے بے حد چست قمیض پہن رکھی تھی‘ ایسی کہ اس میں سے اس کا صحت مند جسم باہر چھلکا پڑتا تھا اور جس کی قمیض میں عین سینے پر ایک جانب کھونچ لگی ہوئی تھی ۔مردانہ وار آگے بڑھنے اور مردانہ نام رکھنے والی بھرے جسم والی شاہجہان بعد میں سندھ کے جتوئی خاندان میں بیاہ کرلیتی ہے اور ناول میں آخری بار یوں آتی ہے کہ اس کی قمیض پر کو ئی کھونچ نہیں ہوتی ۔اس نے بہت کچھ پا لیا ہوتا ہے مگراس کے باوجود باتوں ہی باتوں میں اس کے سینے کے اندر سے ایسا کھونچ ڈھونڈ نکالتی ہے جس نے اسے دبلا اور دکھی کر رکھا ہوتا ہے ۔اس ناول میں خوب صورت افروز بھی ہے جس کے طفیل پورے متن میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔ سائنس پڑھنے اور عالمی ادب گھول کر پی جانے والی افروز ۔یہ بہت کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے ساحر اور اخترالایمان کی نظمیں پڑھنے والی ‘ انقلابی اور سربلند لڑکی۔ آخر میں جمال کے ساتھ بھاگ کر اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرتی ہے ۔اور مقدور بھر دکھ دیتی اوردکھ پاتی ہے۔ اب تک آپ اندازہ فرما ہی چکے ہوں گے کہ خالدہ حسین کے ناول میں لڑکیاں اور عورتیں آتی ہے اور انجام کار اپنے حصے کا دُکھ سمیٹ لیتی ہیں ۔ اتنی ساری لڑکیوں اور عورتوں کے باوجود ‘ مجھے پھر کہہ لینے دیجئے کہ یہ ناول عورتوں کے بارے میں نہیں ہے ۔یہ ہماری تاریخ کا نوحہ ہے ۔ یہ ہماری تہذی ورثے سے جڑنے اور اس کے اندر موجود جبر کے کھانچوں کی کہانی ہے ۔ یہ روایت کا قصہ ہے اور ناروا روایات پر حرف نفرین بھی ۔اس میں ان طبقوں کے مکروہ چہروں پر تھوکا گیا ہے جنہوں نے ہمیں تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے اور اس اندرونی سامراج کی کلف لگی وردی بھی اتاری گئی ہے جو ہر بار اپنے ہی عوام کو اپنے بوٹوں تلے کچلتا ہے ۔ اس میں موجودہ نظام کی خرابیاں اور ان کے محرکات بتائے گئے ہیں اور یہ بھی صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ ہم اوروں کے اشاروں پر ناچ کر اپنا آپ اجاڑ رہے ہیں ۔آخر میں تو ناول صرف بتا تا ہے ‘نفرین بھیجتا ہے ‘ کوستا ہے ‘جھلاتا ہے ۔ اور تازیانے رسید کرتا ہے ۔ خالدہ حسین کی ایک پہچان اس کا اسلوب بھی ہے ۔ ساٹھ کی دہائی کے جدت پسندوں میں خالدہ حسین ہی وہ واحد افسانہ نگار ہے جو باقاعدگی سے اور تخلیقی جواز کے ساتھ افسانے لکھ رہی ہے۔وہ اپنے ہی تجربے سے منحرف ہوکر کہانی کہانی پکارنے والوں میں نہیں اور افسانے کی حد تک اپنے اسلوب سے وابستگی پر مطمئن اور مسرور بھی ہے ۔ جو فیشن زدگی سے بچ کر اپنے تخلیقی تجربے کے ساتھ جڑا رہا ہو اس کے ہاں ایسے اطمینان کا آجانا یقینی ہو جایا کرتا ہے ۔ خالدہ حسین نے اپنے افسانوں میں خود کلامی کے وسیلے سے خوب کام لیا ہے ۔ یہ خود کلامی کہیں تو سٹریم آف کانشی ایس نیس اور کہیں مونو لاگ کی صورت میںظہور کرتی رہی ہے۔ وہ جانے پہچانے منظرنامے میں عجب کا قرینہ رکھ کر ایک دھند سے تجسس ابھارتی ہے اور اسی تجسس سے کئی سوال اٹھاتی ہے ۔ اس کے ہاں تجرید اور علامت کا نظام اسی دھند کی دین ہے ۔ تاہم ‘ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے افسانوں میں وہ متن کو آگے بڑھاتے ہوئے خود آگے نہیں لپکتی جہاں ہوتی ہیں وہیں رہتی ہے ‘ لہذا متن اس کا اپناذاتی جذبہ بن کر جذباتیت کا شکار نہیں ہوتا۔ یہ ایسا طرز عمل ہے جس سے پیچیدہ سے پیچیدہ بات وہ سہو لت اور سفاکی سے کہہ جاتی ہیں۔مگر یہ تو افسانے کی بات ہے سایہ ‘ شہر پناہ‘ سواری اور ہزار پایہ کی بات۔ پرندہ‘ پہچان اور مصروف عورت کی بات ۔ زیر نظرناول میں ایسا نہیں ہوتا ہے ۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا ضروری بھی نہیں ہے کہ افسانے میں ایک خاص اسلوب سے وابستہ رہنے والے اسی اسلوب میں ناول کی بھی لکھیں ۔ مجھے آپ کی بات سے دو سو فی صد اتفاق ہے ۔ مگر کاغذی گھاٹ کو پڑھتے ہوئے آغاز میں کیا ایسا نہیں لگنے لگتا جیسے تخلیق کار کو اپنے اسلوب سے الگ ہوتے ہوئے بہت جتن کرنے پڑ رہے ہیں ۔ممکن ہے میں نے ہی ایسا محسوس کیا ہو اور فی الاصل ایسا نہ ہو مگر میرے اس احساس کی بنیاد کہانی میں در آنے والی اور اکتا دینے والی سست روی ہے یہاں تک کہ کئی صفحے پڑھنے کے بعد مجھے یہ وسوسہ ہولائے دیتا تھا کہ کہانی آگے نہیں بڑھے گی یہی گھمن گھیریاں کھاتی رہے گی ۔ کہانی میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین اور زرخیز کردار آتا تھااور وہیں ادھر ادھر ہوجاتا تھا ‘ اسی حصے میں شہر اور سرخ اینٹوں والی گلیاں آتی تھیں‘ اونچے چوبارے آتے تھے‘ لکڑی کے چھجوں والے‘ تاریک صحنچیاں آتی تھیں ۔ کھڑکیاں آتی تھیں جن پر باریک رنگین تیلیوں کی چقیں پڑی ہوئی تھیں کتنا بھر پور منظر ہے مگر کہانی وہیں رکی ہوئی تھی اور مڑ مڑ کر پیچھے دیکھ رہی تھی۔میں صاف دیکھ سکتا تھا کہ وہاں چھوٹے چھوٹے کمرے تھے‘ جو اس لیے کشادہ نظر آتے تھے کہ ان میں سامان ٹھسا ہوا نہیں تھااور لوہے کے پینٹ کئے ہوئے صندوق تھے‘ اوپر تلے پڑے ہوئے ۔ وہیں ایک کونے میں چھوٹی بڑی دیگچیوں کے مینار تھے۔دیوار پر کھونٹیوں کی لمبی قطار تھی‘ بڑے ابا کا کچہری کا کوٹ‘ دھوبی کی دھلی ہوئی اور کلف لگی شلوار‘ بڑی اماں کا شٹل کاک برقعہ اور بہت کچھ ‘ جو ایک تہذیب کا نقشہ ابھارتا تھااور ایسا ماحول بناتا تھا کہ آنکھوں کے سامنے ایک جہان آباد کر دیتا تھا مگر کہانی تھی کہ ادھر ہی گھومے جاتی تھی اور اس رفتار سے آگے نہیں بڑھتی تھی جس کی میں توقع کئے بیٹھا تھا ۔ پہلے کسی کردار کا وجود اسارا جاتا اور پھر اسے ماحول میں لابسایا جاتا وہ خود ماحول کے اندر کہانی کے بہاﺅ میں اپنی شباہت کا سلسلہ مکمل نہیں کرتا تھا کرداروں کے اوصاف خود بخود نہیں کھل رہے تھا انہیں ناول نگار کو کھولنا پڑ رہا تھا بلاشبہ جزیات میں تحریر کی یہ اکائیاں بہت خوب صورت اور دلکش تھیں مگر اس کے سبب وہ دھندلکا پیدا نہیں ہورہا تھا جوخالدہ کے ہاں افسانوں میں آکراَسرار بھردیا کرتا تھا ایسا اسرار کہ جو اپنے پاس ٹھہرالیتا تھا۔تاہم وہ خدشہ جس نے عین آغاز میں مجھے پچھاڑ دیا تھا بہت جلد ‘ یہی کوئی دوسرے باب کے بعد ‘مکمل طور پر رفع ہو جاتا ہے اور کہانی بہت سے کرداروں سے ملاقات کے بعد آگے بڑھنا شروع کردیتی ہے۔ ناول کا یہی وہ حصہ ہے جہاں صاف صاف محسوس ہونے لگتا ہے کہ خالدہ حسین نے اپنے اسلوب کی بجائے کہانی کے بیانیے سے وفاداری کا فیصلہ کر لیا ہے اور اسے فطری بہاﺅ پر ڈالنے کے لیے سارے رخنے اٹھا لئے ہیں ۔ اس کا نتیجہ بہت خوشگوار نکلتا ہے اورکہانی قدم قدم پر دکھ‘ درد کی فصل بو نے لگتی ہے ....وہ دکھ درد جو اندر ہی اندر بہتا ہے اور محسوسات کی سطح کی سطح پر بہت کچھ سجھانے لگتا ہے۔یہاں پہنچ کربیانیے کا ایک آہنگ قائم ہو جاتا ہے ‘ جس کے سبب متن اور واقعات ایک ہی اسراع سے آگے بڑھتے ہیں ۔ بیانیے کے اس خارجی بہاﺅ کی وجہ سے ناول کے ِاس حصے میں خودبخود ایک باطنی نظام قائم ہو جاتا ہے اور وہ سارا کچھ جو ناول نگار نے لکھتے ہوئے محسوس کیا یا جس تخلیقی تجربے کے تحریک پر یہ متن مکمل ہو رہا تھا‘ ہمارے دل پر بھی اترنے لگتا ہے۔ کہانی کے اس وسطی حصے میں بھی monologue ہے اور کہیں کہیں stream of consciousness کی تیکنیک کو برتا گیا ہے تاہم عمومی طور پر بات مکالموں میں کہی گئی ہے تاہم یہ سارے حربے متن کا تحرک مجروح نہیں کرتے ۔ کہیں بھی محسوس نہیں ہوتا کہ ٹھہر ٹھہر کر ہمیں کچھ بتانے اور سمجھانے کی کو شش کی جارہی ہے حتی کہ ناول اپنے آخری حصے میں داخل ہو جاتا ہے.... وہاں‘ جہاں اس کے کرداروں کو ان کے مقدرکے گھاٹ اُتارا جانا ہے۔ اُس مقدرکے گھاٹ‘ جو ناول نگار کے دست قدرت میں ہے ۔کہانی کے تمام خوب صورت نسوانی کردار لگ بھگ ایک سے انجام سے دوچار ہونے کے باوصف کَھلتے نہیں ایک شدید احساس کے بالمقابل لا کھڑا کرتے ہیں یہ ایسا احساس ہے جو جگر چیر ڈالتا ہے ۔ سچ پوچھیں تو وہ ناول جو کرداروں سے پیوستہ بیانےے کے ذریعے لکھا جارہا تھا یہاں پہنچ کرمکمل ہوجاتا ہے ۔ مگر وہ موضوع‘ جسے خالدہ نے اپنے خاص تہذیبی رچاﺅ‘ تاریخی شعور‘ ثقافتی پس منظر اوراپنے ادراک سے متشکل ہونے والے پیش منظر سے جڑ کراُبھارنا تھا‘ جو بوجوہ کرداروں سے کٹ کرکہانی کے بہاﺅ سے باہر رہ گیا تھا اسے پوری طرح متوجہ کر چکا تھا۔ خالدہ نے ناول کے آخر میں اسے بیان کرنے کے لیے ڈرامے کی اس تیکنیک کا سہارا لیا ہے جس میں تنہا کلامی کے ذریعے ان باتوں کو کہلوایا جاتا ہے جو دوسرے کرداروں سے تو نہیں کہی جاسکتیں مگر جن کی تظہیر ڈرامہ دیکھنے والوں پر ضروری ہوتی ہے ۔ اس تیکنیک کے ذریعے‘ جسے غالبا سولی لوکی”soliloquy“ کہتے ہیں‘ ناول کی مرکزی کردار مونا ہمارے اندر مردہ ہو چکے آدمی کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگاتی ہے۔ ہمارے بے حیا وجودوں پر کوڑے برساتی ہے ۔ یہیں ہمیں وہ بتاتی ہے کہ ہم خوب صورت قوم ہوتے ہوئے بھی کتنے قریہہ ہیں۔یہاں راوی انفرادی اور اجتماعی سطح پر پسپائی ہی پسپائی لکھتا ہے.... مونا بتاتی ہے کہ جب کسی قوم کی فتح بس اسی پر منحصر ہو کہ وہ نوے ہزار شکست خوردہ سپاہ واپس لے آئے اور جو چھ ستمبر تو منائے مگر اکیس دسمبر منانا بھول جائے۔ اُن جہازوں کو تو نمائش میں رکھے جنہوں نے ایک ہی پھیرے میں دشمن کے پانچ پانچ جہازوں کو مار گرایا تھا اور ان جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کو اپنی ڈھٹائی کی بکل میں چھپالے جو ہتھیار ڈالنے والوں کے بھائی بنداپنوں کو غیروں کی طرح کچل کر اُدھر سے بھر بھر کر لائے تھے تو ایسی قوم کا مقدر پسپائی ہی پسپائی ہوتا ہے۔ اُف خدایا! ناول میں اتنا بے پناہ کڑوا سچ کس قدر ٹھونس ٹھونس کر بھر دیا گیا ہے یہ ایسا سچ ہے جو فکشن کا بیانیہ سیدھے سبھاﺅ اپنے اندرسمو لینے کی سکت نہیں رکھتاتاہم خالدہ نے اسے ناول کے بیانیے کاحصہ بنادیا ہے۔ کہانی کی اس ٹریٹمنٹ سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر بیان ہونے والا سچ ہمیں پچھاڑنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے ۔ میں خود کو خالدہ حسین کی دانش اور فکر سے یہاں پوری طرح ہم آہنگ پاتا ہوں ‘ اتنا ہم آہنگ کہ اس کے جذبے اور دُکھ میرے اپنے سینے کی د ھڑکن بن جاتے ہیں ۔اور آخر میں مجھے کہہ لینے دیجئے کہ وہ جو فکشن کو سماج کی تخلیقی دستاویز نہیں مانتے جو ادبی متون سے عصریت ‘دانش اور فکرکو منہا کرکے اسے سر کٹی برہنہ عورت والے فن پارے جیسا لذیذبنانے کو ہی تخلیقی سرگرمی سمجھتے ہیں ان کے لیے اس ناول میں بہت کچھ ہے اتنا کچھ کہ مردہ متون کی شرح پیدائش میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے ۔

No comments: