Saturday, February 14, 2009

مارکیز

مارکیز کا کرنل:زبان بدلی، لحن بدلا
محمد حمید شاہد

الین ٹین ”امریکن کریٹیکل اےسے“ میں کہتا ہے۔
”ادب کا فرض ہے کہ وہ زبان کو سنوار دے جس کے تابع تمام ثقافتیں ہیں۔ اس کا فرض ےہ بھی ہے کہ وہ ہمیں خبردار کر دے کہ جب زبان انسان کی توقع کے مطابق اپنا مقصد پورا نہیں کر سکتی۔“
الین ٹین کا کہا مجھے ےوں ےاد آےا کہ ادبی جریدے ”صریر“ میں فہیم اعظمی نے حسب سابق ایک نئے مسئلے پر قلم اٹھاےا ہے اور وہ ہے ”زبان کی شکست و ریخت کی حدود“ کا مسئلہ .... اگرچہ اس تحریر میں بحث کا مرکز کچھ اور ہے مگر اس کے مطالعے کے دوران مجھے گبرئیل گارسیا مارکیز کے ناول ”کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا“ کا کرنل بھی ےاد آ نے لگا ہے جسے ایک لفظ.... جی ہاں محض ایک لفظ کو اداکرنے کے لےے پچھتّر برس لگے تھے .... اور جب وہ لفظ ادا ہو چکا تو گویا وہ آسودہ ہو گیا تھا....
یاد رہے وہ لفظ ادبی زبان کا نہ تھا، عوامی زبان کا تھا۔
عوامی زبان اور ادبی زبان کے ضمن میں پہلے فہیم اعظمی کی بات سن لیجئے:
”ادبی زبان اور عوامی زبان میں ہمیشہ فرق ہوتا ہے۔ ادبی زبان، لہجہ، تلفظ اور اکثر معنی کے اعتبار سے عوامی زبان سے مختلف ہوتی ہے۔“
فہیم اعظمی کا فرمایا اپنی جگہ‘ مگر بعض اوقات محض ایک عوامی زبان کا عامیانہ لفظ زندگی کی پوری تفسیر بن جاتا ہے۔ اور ایسا ہی عامیانہ لفظ گبرئیل گارسیا مارکیز نے اپنے ناول کے مرکزی کردار (کرنل) کی زبان سے اگلواےا تھا۔
صاحب ‘اس سے پہلے کہ میں وہ لفظ تحریر کروں.... تھوڑی سی جان پہچان گبرئیل گارسیا مارکیز کے ساتھ۔
لاطینی امریکہ کے ملک کولمبیا سے تعلق رکھنے والا نوبل انعام ےافتہ ےہ ادیب اپنے ےورپی ناقدین کی نظر میں طلسمی حقیقت نگار ہے۔ جبکہ خود مارکیز کا کہنا ہے:
”میرے ےورپی ناقدین میری کہانیوں کے طلسم سے تو باخبر ہیں مگر اس کے پیچھے پوشیدہ حقیقت کو نہیں دیکھ سکتے۔ اس کی وجہ ےقینا ان کی عقلیت پسندی ہے جو انہیں ےہ سب کچھ دیکھنے سے مانع رکھتی ہے۔“
لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والا ےہ ادیب اپنے ناولوں اور افسانوں میں کہیں کہیں ےوں منظرنگاری کرتا ہے کہ وہ ہمیں ایشیائی منظر نامہ لگنے لگتا ہے۔ ”پتوں کا طوفان“ کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا“ ”بڑی ماما کا جنازہ“ ”منحوس وقت“”تنہائی کے سو سال“ اور ”وبا کے دنوں میں محبت“ اس کی معروف کتابیں ہیں مگر ہم اس کالم میں صرف ”کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا“ کا تذکرہ کریں گے بلکہ خود کو صرف کرنل کے اس لفظ تک محدود رکھیں گے جسے ادا کرنے کے لےے اسے پچھتّر سال لگے....
ایک عوامی لفظ....
بلکہ ایک عامیانہ لفظ۔
میں آپ کے اشتیاق کو ہوا نہیں دے رہا مگر وہ لفظ جاننے سے پہلے کیا ےہ بہتر نہ ہو گا کہ مارکیز نے کرنل کے کردار کی جس طرح تعمیر کی، چند سطریں اس بارے میں ہو جائیں تاکہ لفظ کی معنوی شدت کا کچھ تاثر آپ تک پہنچ سکے۔
کولمبیا کی خانہ جنگی، جو ایک ہزار روز تک جاری رہتی ہے، میں سے بچ جانے والا آزمودہ کار کرنل.... صابر و شاکر اور باوقار کرنل .... اپنی پنشن کا بے سود انتظار کر رہا ہے اس کی بیوی بیمار اور ضعیف ہے اس کا بیٹا تشدد کی لہر میں مارا جا چکا ہے۔ گھر کا سارا اثاثہ بکتا چلا جاتا ہے مگر وہ اپنے بیٹے کی نشانی ایک مرغ .... اصیل مرغ کو خود سے جدانہیں کرتا۔
اس کی بیوی دمے کا شکار ہے اور مفلسی گھر کے کونوں کھدروں تک میںگھسی بیٹھی ہے۔ اس قدر، کہ انہیں خدشہ ہو چلا ہے کہ وہ بھوکے مر جائیں گے۔ ایسے میں اس کی بیوی مرغ بیچنے کا مشورہ دیتی ہے مگر بوڑھا کرنل نہیں مانتا تو اس کی بیوی.... ہمارے ہاں کی بیوےوں کی طرح .... شکایت کرتی ہے:
”ساری عمر میں نے اس لےے بھاڑجھونکا تھا کہ اب آکر مجھے معلوم ہو کہ میرے وقعت ایک مرغ سے بھی کم ہے۔“
کرنل کہتا ہے۔
”نہیں.... ایسا نہیں ہے.... بلکہ مرغ کو نہ بیچ سکنے کا معاملہ کچھ اور ہے۔“
پھر جب فاقہ کشی میں صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو جاتا ہے تو کرنل کی بیوی کرنل کو اس کی فلالین کی قمیض کے کالر سے پکڑ کر جھنجھوڑتی ہوئی سوال کرتی ہے:
”اب ہم کھائیں گے کیا؟“
ےہاں میں کرنل کا جواب نقل کرنے والا ہوں۔
وہ جواب جو صرف ایک لفظ پر مشتمل ہے....
ایک عامیانہ لفظ پر۔
مگر جی چاہتا ہے کہ اس سے پہلے اپنے ارد گرد پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ دیکھیں تو! .... عام فرد کی زندگی رفتہ رفتہ کتنی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ گذشتہ دنوں آٹے کا بحران آیا تو پورا ملک چیخ اٹھا.... ملک، جو قرضوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے.... اب کیا ہوگا؟ عام آدمی کے سامنے ایک ہی سوال ہے۔
وضع دار سوچتا ہے، کیا اس کی وضع داری کا بھرم قائم رہ سکے گا؟
مزدور سارا دن مزدوری کرتا ہے اور شام کو اس کی مٹھی میں اتنی رقم نہیں ہوتی کہ بیمار بیوی کے لےے دوا اور معصوم بچوں کے لےے غذا دونوں ایک ساتھ لے جاسکے۔ تنخواہ دار طبقہ گرانی کے سیلاب میں ڈبکیاں کھا رہا ہے۔ ایسے میں زبان کے ساتھ بھی عجب معاملہ ہوا ہے وہی جو صاف ستھری، سجی سجائی دکانوں سے نکل کر جمعہ یا اتوار بازاروں کے کیچڑ زدہ اور متعفن تھڑوں پر پہنچ جانے والی اشیائے خوردونوش کے ساتھ ہوا ہے۔
ہاں تو میں کرنل کی زبان سے ادا ہونے والاایک لفظ بتانے والا تھا ۔
عوامی لفظ....
بلکہ عامیانہ لفظ۔
وہی لفظ جس کو ادا کرنے کے لےے کرنل کو پچھتّر سال کا عرصہ لگا کہ کرنل کی ساری زندگی رکھ رکھاﺅ والی زندگی تھی۔ اس نے ہمیشہ اپنی زبان کی حفاظت کی اور ہمیشہ بد تہذیبی کے خلاف رہا مگر جب اس کی بیمار اور ضعیف بیوی سوال کرتی ہے کہ:
”اب ہم کھائیں گے کیا؟“
تو کرنل کو جواب کے لےے صرف ایک لفظ ملتا ہے
عامیانہ لفظ.... وہ جواب میں کہتا ہے۔
”SHIT“(گونہہ)
اس متعفن لفظ کو ادا کرتے ہی پچھتّر سال کے بعد پہلی مرتبہ وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر پاک صاف، واضح اور ناقابل تسخیر محسوس کرتا ہے۔
اور اب ےقینا فہیم اعظمی اتفاق کرنا ہوگا کہ بعض اوقات عامیانہ زبان کا لفظ بھی ادبی زبان کا لفظ بن جاتا ہے۔صاحب ‘ عین اس لمحے ایک اور سوال میرے اندر سر اٹھا رہا ہے اور وہ ہے کہ جب دھڑ ا دھڑ عامیانہ لفظ ادبی تحریروں کا حصہ بننے لگیں تو پھر ادبی تحریروں اور عام تحریروں میں کیا فرق باقی رہ جائے گا؟
٭٭٭

No comments: