Saturday, February 14, 2009

مقصود الہٰی شیخ


مقصود الہٰی شیخ کا...... دِل اک بند کلی
محمد حمید شاہد

میلان کنڈیرا نے
THE ART OF NOVEL
میں ایک کہاوت ےوں نقل کی ہے”
انسان سوچتا ہے اور خدا مسکراتا ہے“:
”کنڈیرا اپنی اس سوچ پر مسرت کا اظہار کرتا ہے کہ ناول کا فن دنیا میں خدائی آرزو کی بازگشت کے طور پر وجود پذیر ہوا ہے۔ خدا انسان پر کیوں مسکراتا ہے اس لےے کہ انسان سوچتا ہے لیکن سوچنے کے عمل کے دوران حقیقت اس کی گرفت سے نکل جاتی ہے انسان جوں جوں سوچتا ہے دوسرے انسانوں سے اس کے خیالات مختلف ہوتے جاتے ہیں۔ مقصود الہٰی شیخ کہ جس کے میں اب تک افسانے پڑھتا آیا تھا، کا پہلا ناول ”دل اک بند کلی“ پڑھا تو نہ جانے کیوں دھیان کی دیواروں سے خدائی قہقہے کی بازگشت مسلسل ٹکراتی محسوس ہوتی ہے۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے کہہ دیا:”معلوم ہوتا ہے کہ مقصود الہٰی شیخ نے کسی اہم نام کو اپنے لےے بطور ماڈل نہیں چنا وہ جس طرح دیکھتے ہیں محسوس کرتے ہیں بیان کر دیتے ہیں۔“میں ان سطروں کو بار بار پڑھتا ہوں اور قہقہے کی بازگشت شدید ہوتی جاتی ہے۔ف۔ س اعجاز کا کہنا ہے:”ناول اک بند کلی“ میں جنس اور مادے کے ساتھ ساتھ آدمی کے تجربات لاےعنیت پر ختم ہوتے ہیں جبکہ آدمی محض فطرت کا ایک تجربہ ہے فطرت اس سے سرشاری حاصل کرتی ہے۔“قہقہہ اور اس کی بازگشت اب ےقینا آپ تک بھی پہنچ رہی ہو گی۔مادے اور جنس کا تذکرہ چل نکلا ہے تو کچھ زندگی کا ذکر بھی ہوجائے کہ ان کے ساتھ زندگی لازم و ملزوم ٹھہرتی ہے.... مگر زندگی خود کیا ہے؟ سارتر کی زبانی ایک تلخ سی بات بھی سن لیں۔”زندگی چپکنے والی غلاظت ہے جو بہتے بہتے جم گئی ہے“ خدائی قہقہوں کے نیچے بہت نیچے زندگی کی غلاظت میں لتھڑی سعدیہ وہ بنیادی کردار ہے جس کے گرد پورے ناول کا تانا بانا بنا گیا ہے۔ کہیں کہیں ےہ کردار جنسی تعلقات کے وسیلے سے انسانی مراسم کی تفہیم کا باعث بنتا ہے اور کہیں کہیں اپنے غیر فطری ردعمل کے باعث الجھاتا چلا جاتا ہے۔ایک باغی لڑکی‘ جو اپنا سب کچھ تج کر خود کو ایک نئی تہذیب کی تندو تیز لہروں کے تقریباً حوالے ہی کر دیتی ہے‘ کے معاشرتی پس منظر کی وہ اصل تصویر سامنے نہیں آتی جو اسے باغی بناتی ہے۔ فیروز کا روےہ بھی غیر فطری لگتا ہے مگر مظہر اور سعدیہ کے بیچ جو تعلق ہے اس نے ناول کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ وقت کی دھول سے محفوظ رہ سکے۔ اس ناول کے ےہی دو بنیادی کردار ہیں جو فطرت کے قہقہے کی زد پر ہیں۔فرینک کا پلر نے کہا تھا:”انسان ایک بے معنی کائنات میں آتا ہے اور اپنے پر اسرار شعور کے طفیل اسے رہنے کے قابل بنا دیتا ہے۔“سعدیہ کی ساری جدوجہد دراصل اس بے معنی کائنات کورہنے کے قابل بنانے کا عمل نظر آتی ہے لیکن ےوں محسوس ہوتا ہے ےہ کردار ےا اس کردار کو آگے بڑھانے والے سارے کردار ےک رخی کہانی سے آگے نہیں بڑھتے۔ گویا ناول نگار نے ایسا کیمرہ اٹھا رکھا ہے جس میں زوم لینز لگے ہوئے ہیں وہ جس کی چاہتا ہے تصویر بنا دیتا ہے قریب سے.... بہت قریب سے ےوں کہ جلد کے مسام تک نظر آنے لگتے ہیں مگر اسی لمحے وہ سارا منظر نامہ فریم کے ادھر ادھر سے کٹ کٹا کر غائب ہو جاتا ہے، جو ہوتا تو اپنے گہرے رنگو ں سے تصویر کی معنویت کو اور زیادہ وسیع، گھمبیر اور اثر انگیز بنا دیتا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ حقیقت کا Graphic Disclosureکسی بھی فن پارے کے آفاقی اثرات اس کے موضوعی اور معروضی عناصر کے درمیان ربط کی صورت میں ہی ظہور پذیر ہو سکتے ہیں۔ میں اپنی بات واضح کرنے کے لےے اس کتاب کا حوالہ دینا چاہوں گا جو ۲۶۹۱ءمیں ماسکو سے شائع ہوئی تھی کتاب کا نام STUDY OF SIGN SYSTEMS SYMPOSIUM ON THE STRUCTURALہے اس کتاب کے صفحہ نمبر 125پر (B.USPENSKY)ٰؓبی اسپنسکی نے خیال ظاہر کیا ہے کہ:”کسی فنی تخلیق کو ایسے متن ےعنی Textکے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو علامت پر مشتمل ہے اور ہر شخص اس سے اپنے اپنے انداز کے معنی اخذ کر سکتا ہے۔“(امکانات)ممکن ہے کہ آپ بی اسپنسکی کی اس بات سے متفق نہ ہوں۔ میں بھی کلی طور پر اس خیال کا ہم نوا نہیں ہوں مگر میری دیانت دارانہ رائے ےہ ہے کہ فن پارے کے اندر کم از کم دو جہتیں ضرور ہونی چاہییں۔ ےہ اوپری اور زیریں سطح ہو ےا باطنی اور خارجی، شخصی اور معاشرتی سطح ہو ےا انفرادی اور اجتماعی۔ دو سطحوں پر فن پارے کی تفہیم فن پارے کی عمر کو طوالت بخشتی ہے۔ باوجودیکہ مقصود الہٰی شیخ نے معاشرتی پس منظر ابھارنے والے سارے کرداروں کے محض خاکے بنائے ہیں اور آگے بڑھتے چلے گئے ہیں مگر پھر بھی جو اک ادھوری تصویر بنتی ہے اس میں ناول کے بنیادی تناظر کو سمجھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔ناول نگار کا بنیادی موضوع انسان کی جبلت ہے خصوصاً ناول میں جنس کے اثرات کا مطالعہ ملتا ہے۔ انسان جو بنیادی طور پر فطرت پر قدرت رکھتا ہے ےہاں جنس کے ہاتھوں میں کھلونا بن جاتا ہے چودھری جمال اور ہیڈ مسٹریس گل بانو کماندار کے مبینہ تعلق کی جانب اشارہ اسی ہیڈ مسٹریس اور اکبر جمال کے روابط ناول کے آخر میں جا کر فقیر اللہ کے کردار کی نئی توضیع، شوکت فیروز اور مظہر کے لےے سعدےہ کا رویہ، ناول کے کسی بھی کردار کے بنیادی روےے کو لے لیں اصل تنازع ایک ہی بنتا ہے اور وہ ہے جنس۔میں جنس کو شجر ممنوعہ نہیں سمجھتا عزیز احمد، سعادت حسن منٹو اور ابھی کل تک ممتاز مفتی بھی انسانی جبلتوں پر لکھتے رہے ہیں اور ان جبلتوں میں جو سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آئی ہے وہ جنس ہی ہے۔ سعدیہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے تھوڑا سا ذکر The Unbearable Lighten of the being کا ہو جائے کہ اسے میں نے پڑھا بھی ہے اور اس کی فلمائی ہوئی صورت دیکھی بھی ہے ناول جس قدر گہرائی سے انسانی جبلتوں کی پرت پرت اتار کر سامنے رکھ دیتا ہے اس کی فلمائی صورت میں محض جنس کے بیان پر ہی سارا زور صرف ہوتا ہے۔ اس کہانی کا بنیادی کردار Terezaوہ مضطرب اور بے چین روح ہے جو زندگی کی لا ےعنیت میں اپنے لےے معنویت تلاش کرتی پھرتی ہے۔ اس کردار کا مطالعہ ےہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ بالآخر جنسی حوالے سے انسان ایک دوسرے کے دےوانے کیوں ہو جاتے ہیں۔”دل اک بند کلی“ میں سعدیہ اور مظہرانسانی جبلت کی اسی سطح سے گزرتے ہیں ایک دوسرے کے لےے دیوانگی کی حد تک ان کا تعلق بڑھ جاتا ہے حتیٰ کہ بند دروازے کے باہر مظہر آکر جان دے دیتا ہے۔ جنسی اذیت کی ےہ سطح سمجھ میں آنے والی ہے مگر اس سوال کا کہیں جواب نہیں ملتا کہ وہ کیا عوامل تھے کہ جن کے ساتھ مظہر سچا رشتہ قائم نہ کر سکا اور تمنا کے ساتھ ایسا جائز اور قانونی رشتہ قائم کر لیا جس میں اس کی روح شریک نہیں ہوتی۔TEREZA جیسے کردار کے مطالعے سے میں نے سعدیہ کا جنسی روےہ بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ TEREZA اس مسئلے سے دوچار ہوتی ہے کہ جسم اور روح کے مابین کیا تعلق ہے ۔ اس اثنا میں وہ ایک انجینئر کے ساتھ جنسی عمل سے گزرتی ہے تو اسے اچانک محسوس ہوتا ہے کہ اس عمل میں ان کا جسم شریک ہے ‘روح آنکھیں بندکر کے پرے کھڑی ہے ۔ سعدیہ بھی احساس کی اسی سطح کو چھوتی نظر آتی ہے۔ ےہاں تک کہ وہ مظہر کے لےے تڑپتی ہے اور خواہش کرنے لگتی ہے چاہے مظہر نکاح نہ بھی کرے بس ایک بار اقرار کرے کہ وہ سدا اس کے ساتھ رہے گا۔ لیکن جب ناول کے آخر تک ایسا نہیں ہوتا تو وہ پھر جاتی ہے اس کی روح اکتاکر آنکھیں بند کر لیتی ہے اور محض اس کا جسم مظہر کا ساتھ دیتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ بھی اپنی توہین برداشت کرنے سے انکاری ہو جاتا ہے۔مجھے ےہاں منشا ےاد کی کہانی ”گدلا پانی“ کی ابتدائی سطور ےاد آ رہی ہیں :”ممکن ہے آپ کو معلوم ہو کہ محبت اس کے بغیر تو قائم رہ سکتی لفظوں کے بغیر نہیں محبت بھی ایمان کی طرح زبان سے اقرار چاہتی ہے اور الفاظ مانگتی ہے اس کے بغیر ہوس کہلاتی ہے“منشا ےاد خوبصورت افسانہ نگار ہے لکھتا ہے تو مسئلے کی تہہ تک پہنچا دیتا ہے ۔ گدلا پانی کی ےہ ابتدائی سطور اگر ناول ”دل اک بند کلی“ کی ابتدا میں لکھ دی جائیںتو سارا قضیہ سمجھ میں آ جاتا ہے۔اس مرحلے پر سارتر کی اس کہانی کا ذکر بھی ہو جانا چاہےے جس کی ہیروئین لولو اپنے شوہر کی عادی ہو جاتی ہے اس قدر عادی کہ اس کے نرم اور ڈھیلے ڈھالے بدن سے لطف لیتی ہے اس کا اپنا وجود ٹوٹتا رہتا ہے مگر وہ اپنی ساری اذیت پاﺅں کے انگوٹھے ‘کہ جو اس نے اوپر اوڑھی چادر کے ایک سوراخ میں گھسیڑ رکھا ہوتا ہے‘ میں منتقل کر دیتی ہے۔ مقصود الہٰی شیخ کے مظہر کا جسم سارتر کے ہنری جیسا نہیں بلکہ سارتر ہی کے دوسرے کردار پیٹرسن جیسا ہے سخت مضبوط اور پر جوش ۔ مگر جس طرح لولو کو ہنری کی عادت ہو جاتی ہے اسی طرح مظہر بھی سعدیہ کی کمزوری ماناجا سکتا ہے ۔ بس اس فرق کے ساتھ کہ لولو بالآخر ہنری کے پاس پلٹ آتی ہے جبکہ سعدیہ کے دروازے پر مظہر جان دے دیتا ہے اور وہ گہری نیند سوئی رہتی ہے۔ البتہ جب اس کی آنکھ کھلتی ہے اور بدلا ہوا تالا کھول کر باہر نکلتی ہے تو چیخ کر مظہر کی اس نعش کی طرف لپکتی ہے جو ایمبولینس میں ڈال کر دور لے جائی جارہی ہوتی ہے ۔ بات میلان کنڈیرا سے شروع ہوئی تھی اس کی ایک اور بات سن لیجیے.... کہتا ہے:”جو کچھ ناول دریافت کر سکتا ہے وہ صرف ناول ہی سے ممکن ہے“گویا علم ناول کی اخلاقیات ہے ےا ےوں کہہ لیں کہ وہ ناول جو کسی نہ کسی حوالے سے ہمیں کوئی علم نہیں دیتا ہے بہت جلد فراموش کر دیا جاتا ہے۔ سعدیہ اور مظہر کا کردار ان کے بیچ تعلق کی نوعیت دونوں کی جذباتی سطوح اور نفسیاتی تجزیہ وہ عناصر ہیں جو ہمیں علم کی اخلاقی سطح سے کہیں آگے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں ےہ خاصیت ہی اس ناول اہم بنا دیتی ہے۔

No comments: