Sunday, February 15, 2009

انتظار حسین

اِنتظار حسین کو سمجھنے کے جتن
محمد حمید شاہد

جب سے مجھے یہ کہا گیا ہے کہ انتظار حسین پر بات کرنی ہے میرے اندر عجب سی بے کلی دوڑ گئی ہے ۔ اس کَھدبَد کا سبب اِس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ مجھے بات کرنے کے لیے آغاز نہیں مل رہا‘ ایسا آغاز جو بات کو پھیلاو ¿ کی طرف نہ دھکیلے اور اس امر کی ضمانت دے کہ میرے اس کوشش سے انتظار کی کہانیوں کی تخلیقی فضا روشن ہو کر سامنے آجائے گی۔ میری مشکل یہ ہے کہ جس انتظار کو میں مانتا ہو ں وہ ”آخری آدمی“ ”زرد کتا“ اور ”شہر افسوس “والا انتظار ہے اوراسے حد تک مانتا ہوں کہ اس باب میں اس جیسا کوئی اور نہیں مانتا‘ تاہم جب جب اِس اِنتظار کی بات کرنا چاہتا ہوںایک اور انتظار اپنے تنقیدی بیانات کی کھڑگ اٹھائے راہ روک کر ادھر کو لڑھا لیتا ہے ....تویوں ہے ‘ کہ پہلے اِن تنقیدی الجھیڑوں سے نبٹ لیں گے تو بات سہولت سے آگے بڑھ پائے گی۔ صاحب دیکھیے تو کتنی اُلجھانے والی بات ہے کہ عین اس زمانے میں بھی کہ جب ہر کہیں طبعزاد کہانی کاشہرہ ہے انتظار کے دل کو طبعزاد کہانی کا مطالبہ سرے سے بھاتا ہی نہیں ہے ۔ ۶۰۰۲ءمیں چھپنے والی اپنی کتاب ”نئی پرانی کہانیاں“ کے ابتدائیے میں اس نے طبع زاد کہانی کے مطالبے کونئے زمانے کے تعصبات کہا ۔ ایسے تعصبات جن کی وجہ سے کہانی کی روایت بیچ کھنڈت پڑ گئی ہے ۔ اس مسئلے کو انتظار نے بہت گھما پھرا کر اور بار بار لکھا ہے۔ کبھی تو اسے سماعی روایت کے رکنے کا سانحہ کہا ‘ کبھی اس بہانے پرنٹنگ پریس کو برا بھلا کہا جو دھڑا دھڑ نئی کہانی چھاپ رہا ہے اور کبھی ہاتھ مل مل کر تشویش کا اظہار کیا کہ لو جی کہانی کی راہ تو اب کھوٹی ہو ئی ہے۔ وہ زمانہ گیا جب افسانہ لکھا جاتا تھا ۔ وہ زمانہ کہ جب لمبی اور کالی رات میں الاﺅ دہکتا تھا لوگ باگ اسی الاﺅ کے گرد بیٹھتے تھے تو بھیگتی رات کے ساتھ کہانی بھی ٹھل پڑتی تھی ۔ بقول انتظار:” قدیم زمانے کے الاﺅ سے لے کر میری نانی کی انگیٹھی تک کہانی کی تاریخ اسی طرح چلی ہے۔ “(اِنتظار حسین/” اَدب اور سماعی روایت“ )یہ جو نئے زمانے کی کہانی کو نظر انداز کرنے کے لیے انتظار کے اوپر نیچے بیانات آئے چلے جاتے ہیں تو انہی بیانات کے بیچ مجھے انتظار کے افسانوں کا وہ مجموعہ یاد آتا ہے جو ۲۵۹۱ ءمیں چھپا تھا۔ میری مراد اس کے افسانوں کی پہلی کتاب ”گلی کوچے “ ہے جس کا دیباچہ پڑھ کر گماں گزرتا ہے کہ تب تک نانی کی انگیٹھی تک چلی آنے والی قصہ کہانی کی بعد میں بے چاری ہو جانے والی روایت کے دکھ کو اس نے اپنی چھاتی میں نہ بسایا تھا ۔ اس کتاب کی کہانیاں پڑھ لیجئے ”قیوماکی دکان “ سے لے کر ”استاد“ تک‘ تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تو اُسی ٹھیٹھ سماجی حقیقت نگاری کی روایت میں لکھی گئی تھیں جو بعد میں انتظار کو کھلنے لگی تھی ۔ اس کتاب کے ”خریدو حلوا بیسن کا“ ”چوک“ ”اجودھیا“ ” پھر آئے گی“” عقیلہ خالہ“ ” رہ گیا شوقِ منزلِ مقصود“ اور”روپ نگر کی سواریاں“ جیسے افسانوں کو ذہن میں تازہ رکھ کر انتظار کایہ تازہ ترین اعترافی بیان بھی سن لیجئے جس کے مطابق انتظار کا پہلا عشق کرشن چندر کا افسانہ تھا ۔ افسانہ کرشن چندر کا مگر زبان سرشار کی ۔ یہیں رہ رہ کر حسن عسکری کا اس کتاب کے حوالے سے ایک مختصر سا مضمون یاد آتا ہے ‘وہی مضمون‘ جس میں عسکری نے کہا تھا کہ کتاب کے سبھی افسانوں کی فضا ‘ کردار‘ مکالمے بالکل ایک جیسے ہیں اور یہ کہ انتظار کواپنے کرداروں کی زندگیوںسے بس اتنی ہی دلچسپی رہی ہے جتنی کہ وہ اپنے شہر یا اپنے علاقے میں نظر آتی ہے۔ عسکری کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس علاقے سے ان کرداروں کو الگ کر لیں تو وہ بالکل مردہ ہوکر رہ جاتے ہیں ۔ ان کرداروں کی پیچھے رہ جانے والے علاقے ہی میں چلت پھرت سے عسکری نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ انتظار نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا‘ اپنے کرداروں کی اندرونی کمزوری کو چھپا لیا اور رِقّت کو لبھاﺅ میں بدل کر افسانوں کا انجام آسان بنالیا۔ بقول اُس کے یہ بھی ایک قسم کی ادبی الاٹمنٹ تھی۔ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مضمون عسکری نے تب لکھا تھا جب تقسیم کو ابھی پانچواں برس بھی مکمل نہ ہوا تھا ۔ اس تناظر میں دیکھیں تو”ادبی الاٹمنٹ “کے طعنے کی معنویت اور اس کی سفاکی کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہتا۔صاحب ہو نہ ہو‘ مجھے تو یہی گمان گزرتا ہے کہ انتظارکے دل پر عسکری کی اس چوٹ نے خوب اثر دکھایاتھا۔ ”گلی کوچے“ میں ۰۵۹۱ءتک کے افسانے شامل تھے جب کہ دوسرا مجموعہ ”کنکری “ ۵۵۹۱ ءمیں چھپا گویا عسکری کی چوٹ لگانے تک انتظار نے اسی رنگ کی کئی کہانیاں تب تک لکھ لی ہوں گی باقی کے افسانوں میں بھی یاد کے سہارے کہانی کا چلن برقرار رکھا اور ثابت کرنا چاہا کہ وہ وار جو عسکری نے کیا تھا‘ وہ اسے پی گیا تھا ۔ مگر میں جو انتظار کے سارے افسانوں کو ایک ساتھ رکھ کر پڑھتا ہوں اور پھر بعد میں یعنی ۷۶۹۱ ء میںآنے والے مجموعے” آخری آدمی “اور بعد کے مجموعوں کی بابت سوچتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جوانتظار نے ایک بار ہاتھ لگانے پر بیر بہوٹی کے مکر بھرنے اور انٹو انٹی کھٹوانٹی لینے کی بات سنائی تھی تو یوں ہے عسکری کے بیان کے بعد کچھ عرصہ تک بیر بہوٹی کا چلن خود انتظار نے اپنائے رکھا ۔ گویاسنا تھا نہ کچھ پڑھا تھا۔ پھر جب یار لوگ عسکری کے مذکورہ مضمون کو بھول بھلا گئے تو جھٹ انگڑائی لی اور کہانی کا چلن بدل کر رکھ دیا۔ اب کے انتظار نے جوکہانی لکھی اس کی دھج ہی الگ تھی ۔ ان کہانیوں کے ذریعے ایک نیا معنیانی نظام متشکل ہوا ۔ بدلے ہوئے انتظار کے سامنے ہند مسلم تہذیب اور وہ انسان تھا جو پاﺅں کی مٹی جھاڑ کرتاریخی اورتہذیبی روایت میں دور کی زمینوں اور زمانوں کا سفر کرتا تھا۔ وہ آدمی جو گلی کوچوں سے جڑ کر ہی معتبر نہیں ہوتا تھا کہ اس کے روحانی اور داخلی تقاضے اس کے بدنی تقاضوں سے کہیں اعلی‘ برتر اور اہم ہو گئے تھے۔ جب میں نے ”آخری آدمی “کی کہانیوں کو پڑھا تھا کہ جن میںصوفیائے کرام کے ملفوظات تھے ‘ عہد نامہ عتیق کی خاص فضا تھی اور داستانوی کردار کہانیوں کے متن کا حصہ ہوکر انسان کو برتر سطح وجود پر جینے کا چلن سجھا رہے تھے تو ساتھ ہی سجاد باقر رضوی کے دیباچے کے ا ہتمام نے چونکایا بھی تھا۔ اس دیباچے میں قیام ِپاکستان کو ہندی مسلمانوںکی بھٹکتی روح کو جسم ملنے کے متراف قرار دینے کے بعد انتظار کے افسانے کو قومی وجود کی تشخیص کی کوشش قرار دیا تھا۔ وہ چوٹیں جو عسکری نے لگائی تھی آپ کو یاد ہیں نا‘ اور وہ کردار بھی جو پیچھے رہ جانے والی گلیوں ہی میں زندہ رہ سکتے تھے۔ وہ کردارجو بقول عسکری غیر حقیقی نہیں تھے‘ عین مین حقیقی تھے مگر تھے شکست خوردہ اور خود افسانہ نگار کو بھی شکست زدہ بنا رہے تھے۔ ہاں اگر یہ سب آپ کو یاد ہے تو انتظار کی نئی جون لیتی ان کہانیوں کو پڑھ کر ماننا پڑھے گا کہ عسکری نے جو کہا تھا اس نے انتظار کو اس نئی راہ پر ڈال دیا تھا تب تک سماجی حقیقت نگاری ‘ طبعزاد کہانی یا نئی کہانی سے اسے کوئی شکایت پیدا نہ ہوئی تھی۔ خود انتظار نے اپنی ایک تازہ تحریر میں مانا ہے کہ تقسیم اور فسادات کی بحث میں عسکری اور ممتاز شیریں نے جو سوال کھڑے کیے تھے اس نے انتظار کا کرشن چندر والی سماجی حقیقت نگاری سے عشق ماند کر دیا تھا گویا انتظار نے یہ کوچہ خود نہیں چھوڑا تھا عسکری نے چھڑوایا تھا اور یہ جو وہ آدمی کو برتر سطح وجود پر جینے کی تلقین کرنے لگا تھا ”آخری آدمی “ ”زرد کتا “ اور” ہڈیوں کا ڈھانچ “ جیسے افسانوں میں‘ کہ جن میں مادی اور جسمانی خواہشات ہیچ ہو جاتی ہیں‘ آدمی لالچ اور حرص و ہوس سے بلند ہونے کی طرف راغب ہو جاتاہے یا پھرکافکا کی کہانی”میٹا مارفوسسز“ جیسا افسانہ ”کایا کلپ “ میں بے ہمت آدمی کے مکھی بن جانے کی بات کرکے یہ بتانا کہ آدمی ہمت کرکے اپنی جون رہے تو ہی آدمی ہے .... تو یہ سب اختیاری نہ تھا ادھر عسکری نے دھکیلا تھا ۔ اچھا دیکھئے ‘ کہ یہ جو میں نے اوپر کہانیوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے” آخری آدمی“ وہ کہانی ہے جس میں آدمی کے بندر بن جانے کو انسان کے اپنی برتر سطح وجود سے گرنے کے مترادف بتایاگیا ہے۔ افسانہ”زرد کتا“ میں نفس امارہ کا مارا ہوا آدمی زرد کتے کی پناہ میں پہنچ کر شرف انسانیت سے گر جاتا ہے۔ ”ہڈیوں کا ڈھانچ“ کا بھوک مارا آدمی جب نانبائی کی دکان سے گزرا اور پکتی ہنڈیا سے اٹھتی سوندھی سوندھی خوشبو اس کے نتھنوں میں گھسی تو اس سوال نے اسے بوکھلا دیا تھا کہ وہ کون تھا آدمی یا کتا ۔ اور افسانہ ”کایا کلپ“ کا شہزادہ آزاد بخت ڈراور خوف کی غلامی میں آکر مکھی بنتا رہا یہاں تک کہ پھر اپنی جون میں پلٹ نہ پایاتو کیا یہ نہیں بتایا گیا کہ خوف سے مکھی بننے والا اپنے برتر سطح وجود کو پھر حاصل نہ کر پایا تھا۔ دئلھیے ان کہانیوں میں جہاں انسان کو اعلی اخلاقی اور روحانی اقدار سے جوڑ کر دیکھنے کی سعی کی گئی ہے وہیں یہ بھی تو بتلا دیا گیا ہے کہ آدمی جب شرف انسانیت سے گرتا ہے تو آدمی نہیں رہتا کتا اور مکھی جیسا ہو کر ذلیل ‘رسوا اور بے حیثیت ہوجاتا ہے ۔صاحب یہ جو میں نے آگے بڑھنے کی بجائے انتظار کے ہاں اس کی اپنی کہانیوں میں جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں سے آدمی کو الگ اور اعلی کرکے دکھادیا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہیں مجھے انتظار کا ایک ایساتنقیدی بیان یاد آگیا ہے جس میں یہ دعوی موجود ہے کہ پرانے زمانے میں سب مخلوقات کی ایک ہی برادری تھی اور انتظار کو محبوب ہو جانے والے پرانے زمانے میں آدمی کے تصور میں یہ نہ تھا کہ وہ خود اشرف المخلوقات ہے ۔ خود ہی کہیے بھلا ایسے میں قاری کیا کرے ‘اِس بیان کو گرہ میں باندھے جس میں آدمی ‘جانور‘ کیڑے مکوڑے اور پکھی برابر ہو گئے تھے یا اوپر کی کہانیوں میں شرف انسانیت سے گرتے آدمی کو کتا اور مکھی بن جانے کی ذلت سے دوچار دیکھ کر متضاد اور متصادم معنی کشید کرے۔ خیر یہ مخمصہ تو قاری کا ہے۔ اپنے قاری کے مخمصے کی پرواہ کیے بغیر پرانے زمانے کی اس خوبی کا انکشاف انتظار نے اپنی تازہ کتاب کے اسی آغازیے میں کیا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ایسا لکھتے ہو انتظار کو یہ یاد ہی نہیں رہا کہ ابھی ابھی تو اس کے قلم نے جنم چکر کی بات لکھی تھی اسی جنم چکر کی جس میں اچھے یا برے کرموں کی کارن آدمی دوسرے جنم میں پکھی یا جنور بن جاتا ہے۔ گویا یہاں بھی گدھا ‘کتا‘گیدڑ بننا ایک لحاظ سے شرف انسانیت سے گرنا ٹھہرا ۔ اگر ایسا ہی ہے تو انتظار کا یوں گھما پھرا کر بات کرنا آخر کیا معنی رکھتا ہے ؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب آگے چل کر تلاش کریں گے کہ فی الحال مجھے انتظار کی کہانیوں کی ایک اور قسم کا تذکرہ کرنا ہے۔ جی‘ میری مراد ان کہانیوں سے ہے جن میںتہذیبی آدمی کے انہدام کا نوحہ کہا گیا ہے۔ آدمی کی اصل ذات ‘جو گم ہو گئی ہے ان کہانیوں کے مرکز میں آگئی ہے اور روح اور بدن کے سوالات یا تو حاشیے پر چلے گئے ہیں یا پھر ان کا ذکر ہی معدوم ہو گیا ہے۔ اس باب میں فوری طور پر جن کہانیوں کی طرف دھیان جاتا ہے ان میں ”شہر افسوس“ اور ”وہ جو دیوار چاٹ نہ سکے “ جیسی کہانیاں شامل ہیں۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ ”شہر افسوس“ میں کہیں تو فساد کی جگہ سے سلامت نکل آنے پر خدا کا شکر بجالایا گیا ہے تو کہیں ان زخموں کے مندمل ہونے کی امید دلائی گئی ہے جو ہجرت کے دورانیے میں لگے تھے پھر غرناطہ کا تذکرہ آتا ہے اور مسلم تہذیب صدیوں کا تسلسل پالیتی ہے۔ ”وہ جو دیوار چاٹ نہ سکے“ میں ایک دیوار ہے جسے دن بھر چاٹا جارہا ہے ۔ یاجوج ماجوج کی کہانی ذہن میں تازہ رہتی ہے ۔ جنہیں سد سکندری کو چاٹ ڈالنا تھا وہ دو منھواں سانپ بن کر ایک دوسرے کو بلکہ اپنے آپ کو چاٹتے اور ڈستے رہے ۔ تویوں اس افسانے کی جو تعبیر بنتی ہے وہ سب پر عیاں ہو جاتی ہے۔ کہیے صاحب کہ اب میں یہ نتیجہ آخر کیوں اخذ نہ کروں کہ اس مرحلے تک آتے آتے ہند مسلم تہذیب کی شناخت کا سوال انتظار کے لیے بہت اہم رہا۔ اس زمانے میں اس نے جو بھی کہانی لکھی اسے نئے زمانے سے جوڑ کر دیکھا اور دیکھنے کی طرف راغب بھی کیا۔ ہاں یہ بات قدرے بعد کی لگتی ہے کہ جب انتظارنے پرانے زمانوں کی گم شدہ کہانیوں کو تلاش کرکے نئے معنی دینے کا تردد کیے بغیر اپنی رنگ رس اچھالتی زبان میں لگ بھگ اسی پرانے ڈھب سے لکھ لینے کو کافی جانا ۔ ان بعد کی کہانیوں کو پڑھیں تو یوں لگتا ہے یہ اس انتظار کی کہانیاں ہیں ہی نہیں جس نے انسان کو بدنی اور مادی سطح سے بلند کر کے دکھا یا اور اسے ایک وسیع تہذیبی تناظر میں دیکھا تھا ۔ لیجئے جب یہ بڑے بڑے سوال نہ رہے تو آدمی‘ انسان بنے یا پکھی اور جانور انتظار کے لیے ایک سا ہوجاتاہے۔ ”نئی پرانی کہانیاں “ نامی کتاب کو پڑھ کر تو یوں لگتا ہے کہ جس طرح اس نے انسان کی معنویت کو معرض سوال میں ڈال دیا ہے خود کہانی بھی معنی سے الگ ہو گئی ہے۔ یہیں انتظار کا مشورہ بھی سن لیں :” اب زمانے کی بھی سنو ۔ میں نے سوچا کہ کیا ضروری ہے کہ ماضی میں سانس لیتی کہانی کو کھینچ کر اپنے زمانے میں لایا جائے ۔ کیوں نا ان کہانیوں کو انہیں کے زمانے میں جاکر ملا جائے۔ لیکن اگر کوئی کہانی ماضی سے نکل کر خود ہی ہمارے زمانے میں آجائے اور آج کے سیاق و سباق میں اپنی معنویت اجاگر کرے تو کیا مضائقہ ہے۔“(نئی پرانی کہانیاں/انتظار حسین)یہ جو انتظار نے دوسری بات کی ہے نئی معنویت والی تو میرا اس باب میں یہ خیال ہے کہ ایسی کسی پرانی کہانی کو از سر نو لکھنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے جولکھنے والے کے لیے تخلیق نو کا جواز لے کر نہ آئے ۔ خیر انتظار کا معاملہ دوسرا ہے اس نے ان کہانیوں کو حکمت کا گم شدہ لال جان کر اپنا مال قرار دے لیا ہے۔ اور طبع زاد کہانیوں کی مذمت کے بعد ایک کتاب میں انہیںجمع بھی کردیا ہے ۔ ایسے میں یہ جو آصف فرخی کے ”دنیا زاد“ کتاب ۔۸۱‘ میں ظفر اقبال نے ایک چبھتا ہوا سوال اٹھادیا وہ بھی دھیان میں رہنا چاہیے ۔ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ یہ انتظار کی کہانیاں کیسے ہو گئیں؟۔ یاد رہے اسی مضمون میں ظفر اقبال نے یہ بھی لکھ رکھا ہے:”انتظار حسین جیسے اتنے بڑے فنکار سے قاری کی توقعات بھی اتنی ہی بڑی وابستہ ہیں اور یہ قدرتی بات ہے کیوں کہ بظاہر تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ دیو مالا کی اتنی پھیلی ہوئی افسانہ نگاری میں سے انہوں نے قینچی ہی کا استعمال قدرے مہارت سے کیا ہے ‘ اور اپنے مطلب کی کہانیاں اس بنے بنائے میگا منظر نامے سے چھانٹ لی ہیں اور بس۔ اس سے آگے کیا ہے ‘ کچھ پتا بھی نہیں چلتا ‘ یعنی آگے سمندر بھی نہیں ہے اور اگر واقعتاً ایسا ہے تو یہ سیدھی سیدھی قاری کوبے وقوف بنانے والی بات ہوئی۔“(افسانے کی حقیقت ایک عام قاری کے نقطہ نظر سے/ ظفر اقبال/دنیازاد ۔ ۸۱)مجھے عین آغاز میں ہی دھڑکا لگ گیا تھا کہ جس انتظار کو میں مانتا ہوں اس پر ڈھنگ سے بات نہیں ہوپائے گی ۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ جی‘ مجھے ایک حیلہ اور کر لینے دیجئے اور کہنے دیجیے کہ اگر ظفر اقبال کا وہ بیان جو آصف فرخی نے دنیا زاد میں چھاپا ہے اگروہ انتظار کے مجموعی کام کے تناظر میں ہے‘ تو سراسر غلط ہے۔ اس بیان کی زد میں پہلے دور کی وہ کہانیاں جو سماجی حقیقت نگاری کے اسلوب میں لکھی گئیں قطعاً نہیں آتیں۔ بعد کی وہ کہانیاں جن میں ہمارے اجتماعی لاشعور کی بازیافت یا تہذیبی شناخت کے لیے داستانوں اور اساطیر سے مدد لی گئی ہے انہیں بھی اس فہرست سے خارج کرنا ہوگا۔ حتی کہ یہ بیان ”نئی پرانی کہانیاں“ کی ان ایک دو کہانیوں پر بھی صادق نہیں آتا جن کے متن سے عصری معنویت کا ظہور کچھ یوں ہوا ہے کہ نئے پرانے زمانے رل مل گئے ہیں تاہم یہ ماننا ہوگا کہ مو ¿ خر الذکر کہانیوں میں سے کسی تحریر کو طبع زاد کہانی کی سی شان عطا نہیں ہو سکی ہے ۔ انتظار حسین کے جس کام کو میں ظفر اقبال کے اعتراضات سے الگ کرکے دیکھ رہا ہوں اگراسے انتظار کے اپنے تنقیدی بیانات کو بھول کر‘ اور اردو فکشن کی روایت میں رکھ کر دیکھا جائے تو انتظار کا مقام بالکل جدا اوراس کا قد بہت اونچا دکھائی دینے لگتا ہے۔ یاد رہے جب میں ایسا کہہ رہا ہوتا ہوں تو میرے ذہن کے فلک پر ”آخری آدمی“”زرد کتا“ اور ”شہر افسوس “ جیسے شاہکار افسانے چمک رہے ہوتے ہیں اور کون نہیں جانتا کہ کسی کے فن کی قدر کا تعین اس کے اعلی کام سے کیا جاتا ہے ۔ میرا دعوی ہے کہ اردو افسانے کی پوری روایت میں کوئی بھی نہیں ہے جس کے پاس ان الگ سی چھب رکھنے والی کہانیوں کے مزاج اورمواد کا ایک بھی افسانہ ہو۔٭٭٭

No comments: