Tuesday, July 10, 2012



احمد ندیم قاسمی کا افسانہ: تخلیقی بنیادیں
محمد حمید شاہد

کئی برس اُدھر کی بات ہے احمد ندیم قاسمی سے نیلوفر اقبال کے ہاں ایک طویل مکالمہ ہوا تھا۔ تب اور باتوں کے علاوہ اس کی سماجی حقیقت نگاری کی حقیقت بھی جاننا چاہی تھی کہ یار لوگ جب جب اس کے افسانے کی بات کرتے ہیں ساتھ ہی ترقی پسندوں کے اس رویے کا ذکر ہونے لگتا ہے جس میں ایک مخصوص زاویے سے سماج کو دیکھنا ہی حقیقت ٹھہرتا تھا۔ یوں گمان گزرنے لگتا ہے کہ جیسے ایک فارمولا قاسمی کے ہاتھ آگیا ہوگابس اسی کے عین مطابق آنکھوں دیکھی کہانی افسانہ بن جاتی ہوگی۔ اس ملاقات میں ہی میں جان گیا تھا کہ جس طرح قاسمی کی ترقی پسندی ایک منزل پر جاکر اپنے ترقی پسند دوستوں سے مختلف ہوجاتی تھی اسی طرح حقیقت کا تصور بھی مختلف ہوگیا تھااور اس کا سبب اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ قاسمی کافرد اور سماج سے رشتہ بالائی سطح پر نہیں بنتا تھا وہ تو کہیں گہرائی میں جاکر بنتا تھا‘مضبوطی کے ساتھ اور اس میں روحانی سطح پر بھید بھنوراپنا کام دکھاتے رہتے تھے ۔
خیر ! ایک ملاقات کا ذکر ہورہا تھا اور اگر میں بھول نہیں رہا تواس باب میں قاسمی کا نقطہ نظر جو بنا اس کا مفہوم اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ اس کے ہاں مجرد واقعہ نگاری اور مشاہدے کے وسیلے سے محض تصویر کشی کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی تھی اور یہ بھی کہ جو ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں فی الاصل حقیقت وہی نہیں ہوتی کہ وہ تو حقیقت کا ایک رُخ سے اظہار ہو سکتا ‘ وہ رُخ جو ہمارے مشاہدے میں آیا یا آسکتا تھا مگر ایک تخلیق کار کو لکھتے ہوئے خارجی حقیقت کے پیچھے کام کرنے والے تاریخی عمل کے ساتھ احساس کی سطح پر جڑنا ہوتا ہے ۔ لگ بھگ یہ وہی بات تھی جو قاسمی نے اپنے ایک مضمون’’ حقیقت اور فنی حقیقت‘‘ میں کہی تھی جو بہت پہلے یعنی جون انیس سو ستاون کے نقوش میں چھپا تھا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ قاسمی عین آغاز ہی میں اپنے دوستوں سے اس باب میں مختلف ہو گیا تھا ۔ اس الگ طرز احساس کا خود قاسمی کو بھی ادراک تھا تبھی تو اس نے کہا تھا:
’’ اگر ہم حقیقت پسندی اور صداقت پسندی کے فرق کو اپنے ذہنوں میں واضح کر لیں تو ادب وفن میں حقیقت کے اظہار سے متعلق ہماری تمام الجھنیں دور ہو سکتی ہیں اور یہی وہ نقطہ ہے جو ترقی پسند ادب کی تحریک کی ابتدا میں ایک حد تک نظر انداز کیا جاتا رہا ۔ ‘‘
’’حقیقت اور فنی حقیقت‘‘/احمد ندیم قاسمی
یہ جو اوپر کی سطروں میں قاسمی کواپنے ترقی پسند دوستوں کی ناقص حقیقت پسندی کا پول کھولتے ہوئے حجاب سا آگیا اور اسے ’’ابتدا میں ایک حد تک‘‘ کے اضافی الفاظ لکھنے پڑے تو اس کی تلافی اس کے قلم کی روانی نے یوں کردی ہے کہ اگلے ہی جملے میں ’’ایک حد تک‘‘ ہونے والی غلطی ترقی پسندوں کے ہاں چلن بنتی دکھائی دیتی ہے۔ قاسمی نے حقیقت کے اس ناقص تصور کو کھلے لفظوں میں مستردکر دیا تھا۔
قاسمی کی اسی تحریر کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس کے ہاں حقیقت کی کئی سطحیں تھیں ۔ خود اسی کے الفاظ میں:
۱۔ حقیقت جامد چیز نہیں ہوتی
۲۔ ہر خارجی حقیقت کے اندر متعدد لہریں رواں ہوتی ہیں
۳۔ اس کی ایک انفرادی حرکت ہوتی ہے
۴۔ اس کا ماضی کی تاریخی حقیقتوں سے رشتہ ہوتا ہے
۵۔ اور یہ مستقبل کے ساتھ بھی ایک رشتہ بناتی ہے
قاسمی نے حقیقت نگاری کو اس صداقت پسندی سے جوڑ ا جس میں حقیقت اور رومانیت کے درمیان موجود تضاد ختم ہوجاتا ہے۔ یوں قاسمی نے ایک تخلیق کار کو اپنے بنیادی وظیفے سے جڑنے کا قرینہ بتادیا ہے۔ لگ بھگ یہ وہی نقطہ نظر بنتا ہے جس کے زہر اثر فیض نے منشی پریم چند کی حقیقت نگاری مسترد کیا تھااوریہی وہ تخلیقی طرز عمل ہے جس میں ترقی پسندی کی لہر میں رومانیت کی لہر آمیز ہو کراس کے ہاں اپنا جادو جگانے لگی تھی ۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ طرز احساس حقیقت کے باب میں اتنا راست اورجامع ہے کہ جس میں انسانی فہم کے تخلیقی عمل کے دوران اس بھیدبھرے علاقے میں پہنچ جاتی ہے جہاں حقیقت مادے تک محدود رہتی ہے نہ مادی حقیقتوں کی نفی ہوتی ہے مگرفن پارے میں تیسری جہت کی گنجائش بھی نکل آیا کرتی ہے تاہم اس کا یہ اثر ضرور ہوا کہ اس طرز احساس نے قاسمی کے ہاں حقیقت اور رومان کو بہم کرکے جملے کی ساخت کو ٹھوس حقیقت نگاروں سے بہت مختلف بنا دیا تھا۔
صاحب ‘یہ جو قاسمی کے افسانوں پر بات کرنے کا ارداہ باندھ کر اس کی حقیقت نگاری کے تصور کو گرفت میں لینے کے جتن کرنے لگا ہوں تو اس کا سبب یہ ہے کہ میری نظر میں اس کے افسانے کا مزاج اس کے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا ۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ قاسمی کے ہاں غالب رجحان رومانیت پسندی کا رہا ہے تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ کہانی لکھتے ہوئے کبھی کبھی وہ شعوری طور پر اس کے زیر اثر رہاہے مگر یہ واقعہ ہے کہ یہ کہانیاں بھی جوں جوں آگے بڑھتی گئیں سماجی حقیقت نگاری کی لپک اپنا اثر گہرا کرتی گئی ۔ ممکن ہے میری یہ بات آپ فوری طور پر ہضم نہ کر پائیں اسی لیے میں آپ کی توجہ قاسمی کے چندافسانوں کے آغاز کے جملوں کی ساخت کی طرف چاہوں گا:
’’ڈوبتا ہوا سورج ایک بدلی سے چھو گیاتو شام کو آگ لگ گئی ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شفق بدلی میں سما نہیں سکی اس لیے چھلک پڑی ہے۔‘‘
(افسانہ ’’بھرم‘‘/احمد ندیم قاسمی)
’’ درختوں کی شاخیں رات کی خنکی میں ٹھٹھر کر رہ گئی ہیں۔ ہوا چلتی تو شایدان کی رگوں میں اتری ہوئی برف جھڑ جاتی مگر ہوا بھی جیسے درختوں کے اس جھنڈ میں کہیں ٹھٹھری پڑی ہے۔ چاندنی میں کفن کی سی سفیدی ہے۔ فراخ اور ہموار لان پر ایک بلی دبے پاؤں بھاگی جا رہی ہے۔ وہ لان کے قوسی حاشیے پر اُگے ہوئے پھولوں پر ٹھٹھک کر رہ جاتی ہے اور اپنا ایک اگلا پنجہ اٹھاکر دم کو یوں حرکت دیتی ہے جیسے جادو کر رہی ہو۔‘‘
(افسانہ’’زلیخا‘‘/احمد ندیم قاسمی)
’’آسمان پر کفن سا سفید بادل چھارہا تھااور ہوا میں کافور کی سی بُو بسی ہوئی تھی۔‘‘
(افسانہ’’ماتم‘‘/احمد ندیم قاسمی)
’’ انگڑائی کا تناؤ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ انگڑائی ٹوٹ گئی۔ باہیں ادھ کٹی شاخوں کی طرح لٹک گئیں اور گالوں کی شفق زردی میں بدل گئی۔ باہیں کٹی شاخوں کی طرح لٹک گئیں اور گالوں کی زردی شفق میں بدل گئی۔‘‘
(افسانہ’’اکیلی‘‘/احمد ندیم قاسمی)
’’اُن دنوں تم سچ مچ کنول کا پھول تھیں ۔ تمہاری پتیوں پر اگر کوئی بوند گرتی تو صرف پھسل کرگر جانے کے لیے۔ تمہاری پنکھڑیوں کا ہلکا ہلکاگلابی رنگ جو مرمریں سفیدی میں مبہم سی جھلکی مارتا تھا بالکل شفق کے مشابہ تھا۔ تم ہنستی تھیں تو صرف اس لیے کہ تم ہنسنے پر مجبور تھیں ‘مگر تمہارا رونا تمہاری بے لوث ہنسی سے بھی زیادہ لذت آمیز تھا۔‘‘
(افسانہ’’بھری دنیا میں‘‘/احمد ندیم قاسمی)
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس ترقی پسند حقیقت نگارنے ڈوبتے ہوئے سورج کے بدلی سے چھڑ چھاڑ کے معاملے سے کوئی انقلابی معنی نہیں نکالے ۔ درختوں کی شاخیں رات کی خنکی میں ٹھٹھر تی رہیں تو اس کے کوئی نظریاتی معنی نہیں ہیں ۔ آسمان پر کفن سا سفید بادل جھول رہا ہے تو اس میں بھی بالا دست طبقے کی قہاری کی طرف اشارہ خطا ہو گیا ہے۔ انگڑائی کا تناؤ ٹوٹتا ہے اور گالوں کی زردی شفق میں بدل جاتی ہے مگر یہ نعرے کی سرخی نہیں بنتی ۔ کہانی بے لوث لذت سے لطف اندوز کرتی رہتی ہے تاہم صاف صاف پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں رومانیت کی مٹھاس زیادہ ہو گئی ہے جو کہیں کہیں کَھلنے لگتی ہے۔
اور ہاں صاحب‘ یہ بات ماننے کی ہے کہ قاسمی کے جن افسانوں کی ابتدائی سطور اوپر دی گئی ہیں وہ اس کے معروف اور کا میاب تسلیم کیے جانے والے افسانے نہیں کہلائے جاسکتے اور یہ بھی مان لیا جانا چاہیے کہ الحمدللہکنجری‘پرمیشر سنگھ‘رئیس خانہ‘ بین‘اورلارنس آف تھلیبیا وغیرہ جیسے قاسمی کے نمائندہ افسانوں میں اس طرح کا شعوری اہتمام نہیں ملتا۔
’’شادی سے پہلے مولوی ابل کے بڑے ٹھاٹھ تھے کھدر یا لٹھے کی تہبند کی جگہ گلابی رنگ کی سبز دھاریوں والی ریشمی خوشابی لنگی ‘دوگھوڑا بوسکی کی قمیض جس کی آستینوں کی چنٹوں کا شمار سینکڑوں میں تک پہنچتا تھا۔۔۔۔۔۔‘‘
(افسانہ’’الحمدللہ‘‘/احمد ندیم قاسمی)
’’سرور گھر میں داخل ہواتو ایک بہت بھاری خبرکے بوجھ سے اس کی کمر ٹوٹی جارہی تھی ‘گلے کی رگیں پھول رہی تھیں ‘جیسے باتیں اس کے حلق میں آکر لٹک گئی ہوں۔۔۔۔‘‘
(افسانہ’’کنجری‘‘/احمد ندیم قاسمی)
’’اختر اپنی ماں سے یوں اچانک بچھڑ گیا جیسے بھاگتے ہوئے کسی کی جیب سے روپیہ گر پڑے‘ابھی تھااور ابھی غائب۔۔۔‘‘
(افسانہ’’پرمیشرسنگھ‘‘/احمد ندیم قاسمی)
’’پلنگ اتنا چوڑا تھا کہ کہ اس پر جو کھیس بچھا تھاوہ چار کھیسوں کے برابر تھا۔ اس کے وسط میں پلش کے ایک تکیے کے سہارے بڑے ملک صاحب کا جسم ڈھیر پڑا تھا۔۔۔۔‘‘
(افسانہ’’لارنس آف تھلیبیا‘‘/احمد ندیم قاسمی)
آپ نے دیکھا صاحب کہ پہلے ہی جملے سے کہانی کا قضیہ سامنے آنے لگتا ہے ۔ اس کے کردار متحرک ہوجاتے ہیں اور منظر واقعے سے جڑ جاتا ہے ۔ قاسمی کے ان بڑے افسانوں کے ابتدائی جملوں وہ شعوری کوششیں کام نہیں کر رہی ہیں جو میں اس کے دوسرے اور قدرے غیر معروف افسانوں میں اوپر نشان زد کر آیاہوں۔ تاہم جوں جوں آپ یہ معروف افسانے پڑھ کر آگے بڑھتے جائیں گے آپ محسوس کریں گے کہ قاسمی نے کہانی کو اپنی دھج سے آگے بڑھنے دیا ہے اور دونوں رویے غیر محسوس طریقے سے اسی بہاؤ میں آکر آمیز ہوگئے ہیں۔ اس سارے معاملے سے میں نے اپنے تئیں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قاسمی دل سے قائل تھاکہ مجرداور ٹھوس حقیقت نگاری سے تخلیقی عمل خام رہ جاتا ہے لہذا وہ بعض اوقات شعوری طور پر جملوں کی ساخت ایسی بنالیا کرتا جو رومانیت پسندوں کو مرغوب رہی تھی۔تاہم جہاں کہیں بھی دونوں رویے کسی شعوری کوشش کے بغیربہم ہوئے کہانی مکمل ہوگئی اور تخلیق عمل اپنی دھج دکھا گیا۔
ایک اور چیز جس نے قاسمی کے افسانوں کی تخلیقی فضا کو مختلف کیا وہ اس کی دیہات نگاری ہے ۔ یہ بات علم میں رہنی چاہیے کہ قاسمی انیس صد سولہ میں انگہ میں پیدا ہوا۔ اس کے خاندان کا ذریعہ معاش کاشتکاری تھااور اگر آپ نے تھل کے اس بارانی علاقے کو نہیں دیکھ رکھا تو آپ گمان بھی نہیں باندھ سکیں گے کہ اس دور میں ایک معمولی کاشتکار کی زندگی کتنی تلخ ہو سکتی تھی ۔ خود قاسمی نے اپنی کہانی کہتے ہوئے جیسی جھلک دکھائی ہے اس سے جیسا گمان بھی بنتا ہے ویسی ہی تصویر بنا لیں تو بھی آنسو ؤں کا آنکھ کی پتلیوں تک اُمنڈ آنا یقینی ہو جاتا ہے۔
’’ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسے جانے سے پہلے میرے وہ آنسو بڑی احتیاط سے پونچھے جاتے تھے جو اماں سے محض ایک پیسہ حاصل کرنے میں ناکامی کے دکھ پر بہہ نکلتے ۔۔۔‘‘
’’ پیاز یا سبز مرچ یا نمک مرچ کے مرکب سے روٹی کھاتے وقت زندگی بڑی سفاک معلوم ہونے لگتی تھی۔۔۔‘‘
تاہم تلخ ہو جانے والی اس زندگی کی اپنی ایک لذت تھی ۔ سسکتی ہوئی زندگی کے ساتھ ساتھ فرد سے فرد کی وابستگی کا جو ماحول ہم قاسمی کے افسانوں میں دیکھتے ہیں اس کے پیچھے نفسیاتی سطح پر قاسمی کی اپنی زندگی کی اٹھانوجود کے ریشے ریشے میں اترجانے والاتجربہ اور گہرا مشاہدہ کام کر رہا ہوتا ہے ۔ اردو افسانے میں بلونت سنگھ کی دیہات نگاری بھی بہت اہم مگر اس کے ہاں دیہات کا سنگی چہرہ ابھرتا ہے ‘ بیدی کے ہاں کا دیہات مجبوری میں پڑچکے کرداروں کی لاچاری کے پیچھے رہ جاتا ہے ۔ ان دونوں کا اپنا لطف ہے مگر قاسمی نے نہ تو اپنی دیہات نگاری میں کردار سازی کو نظر انداز کیا ہے نہ کردار نگاری کی للک میں دیہات کا چہرہ مسخ یا مدھم ہوا ہے ۔ یوں اس کے افسانوں کا دیہات اس آنگن اور ان گلیوں کا سا ہو جاتا ہے جو خود قاسمی کی زندگی کا حصہ تھیں:
’’ عالم یہ تھا کہ جب ہم بہن بھائی اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتے ‘ وہ چرخہ کاتتیں اور ہم پونیاں بناتے‘ وہ چکی پیستیں ہم مل کر گیت گاتے‘ وہ کوٹھے کی لپائی کرتیں اور ہم سیڑھی سے چمٹے کھڑے رہتے ‘ بہرحال جب ہم اکٹھے ہوتے اور بارش ہونے لگتی تو اماں دہلیز کے پاس بیٹھ جاتیں ۔ ہم تینوں ان کے آس پاس آجاتے ‘ باہر آنگن میں بلبلے ان گنت گنبدوں کا فرش بچھاتے اور آنگن کی بیریوں کے پتے اڑتے ہوئے اندر ہمارے پاس آجاتے اور باہر گلیوں میں ننگ دھڑنگ بچے پرنالوں کے نیچے نہاتے اور چلاتے تو اماں ہمارے سروں پر ہاتھ پھیرتیں اور روتیں اور بڑے دکھ سے آپ ہی آپ کہتیں ’’بوند بوند پانی کے ساتھ فرشتہ اترتا ہے ۔ اے فرشتو !خدا کے دربار میں جاکر مجھ دکھیا کی طرف سے عرض کرو کہ میں نے جو دکھ بھوگے ‘سو بھوگے ‘ان میرے بچوں کو کوئی دکھ نہ دینامیں نے انہیں بڑی مشکل سے پالا پوسا ہے ۔‘‘
یاد رہے اس دکھیاری کا سرتاج انیس صد چوبیس میں مر چکا تھا- تو یوں ہے کہ قاسمی کے ہاں دیہات بھی اسی عورت کی صورت سامنے آتا ہے جس کا خیال رکھنے والا مر چکا ہے‘ جس کے آنگن میں چھم چھم محبت میں گندھے رشتوں کی بارش ہورہی ہے اور جس کے پرنالوں سے دکھ کا چھاجوں پانی برس رہا ہے ۔ قاسمی کے افسانوں کے حوالے سے اس بات کو ریکارڈ پر لانا بہت اہم ہو جاتا ہے کہ کہانی لکھتے ہوئے قاسمی کے ہاں محض دیہات نگاری ہی اس کا مطمع نظر نہیں تھی بلکہ یوں تھا کہ کہانی کا بنیادی خیال ‘ کردارنگاری اور دیہی ماحول ایک دوسرے کا لازمی جزو ہو جاتے تھے۔ قاسمی کے ایک معروف افسانے کا یہ ٹکڑا دیکھئے اس میں خدابخش کے ساتھ اس کا یار ہے جو شہر سے آیا ہے۔ اس کا چہتا نوکر بشکو بھی ساتھ ہے۔ نام تو اس کا بھی خدا بخش تھا مگر وہ نوکر تھا لہذا اس کی الگ سے شناخت ضروری تھی۔ بڑے ملک صاحب کے بیٹے نے اسے بشکو کہا اور یہی اس کی پہچان بن گیا۔ اسی بشکو کے بازو پر وہ باز ہے جس کانام لارنس آف عربیا کی طرز پر خدابخش نے لارنس آف تھلیبیا رکھ چھوڑاہے ۔ کہانی کے اس حصے تک پہنچتے پہنچتے ہم جان چکے ہیں کہ یہ لوگ ڈھائی تین میل کا فاصلہ طے کرکے سرخی مائل مٹی سے لپے ہوئے ایک گھروندے کے پاس پہنچ چکے ہیں۔یہ بابایارو کا گھر ہے جو بعد میں‘ بقول خدابخش ’’بدذات‘کنگلی اور قلاش ‘‘ نکلی تھی ۔ لارنس آف تھلیبیا کی قاتلہ۔ خدا بخش نے چپکے سے اترنے اور آہستہ آہستہ گھر کے قریب جانے کی تجویز پیش کی ۔ اس ٹکڑے میں دیکھئے کہانی کے کردار ‘ منظرنامہ اور معنی کا بہاؤ کیسے ایک دوسرے کا لازمی جزو ہو گئے ہیں:
’’ایک بار میں اور بشکویونہی چپکے سے آئے اور بابا یارو کے پاس ایک چارپائی پر بیٹھ گئے۔ بابا یارو اپنی رسیاں بٹنے میں مگن رہا ‘ مائی بیگاں چولہے میں پھونکیں مارتی رہیں اور رنگی ٹوکے سے چارہ کترتی رہی ‘کسی کو پتہ ہی نہ چلا۔ پھر جب انہیں پتہ چلا تو بابا یارو اتنا شرمندہ ہوا کہ کچھ کہہ ہی نہ سکا۔ منہ سے بس پھب پھب کرکے رہ گیا ۔ مائی بیگاں اپنے بڑھاپے کو گالیاں دیتی رہی اور رنگی تو اتنا ہنسی کہ جب بابا کی پھٹکار پر بھی اس کی ہنسی رکنے میں نہ آئی تو وہ اندر کوٹھے میں بھاگ گئی۔‘‘
(افسانہ’’لارنس آف تھلیبیا‘‘/احمد ندیم قاسمی)
اسی طرح قاسمی کے ایک اور افسانے ’’کنجری‘‘ میں کرداروں کا تعارف کراتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ کمالاں کا دادا سہراب خان پچاس کے پیٹے میں پہنچا تھا تو ملتان کی ایک مشہور طوائف زرتاج کو بیوی بنالایاتھا۔ گاؤں والے اس بارے میں بے خبر تھے کہ زرتاج کوٹھے والی تھی تاہم زرتاج کے ہاں سرور کی پیدائش کے موقعے پرموجود دایہ نے اسے پہچان لیا کہ یہ تو وہی ملتان والی کنجری تاجی تھی۔ بس پھر کیا تھا ایک لفظ سارے گاؤں میں گونج گیا۔ قاسمی نے جس طرح سہراب خان کو گاؤں سے نکل بھاگنے پر مجبور کیا ہے اس میں کہانی اپنی حقیقی رفتار سے چلی ہے ‘کردار اپنی شباہت بناتے چلے گئے ہیں اور دیہی زندگی کا چلن بھی پوری طرح اجاگر ہو گیا ہے ۔
اب آئیے قاسمی کے افسانوں کے موضوعات کی طرف اور صاحب اس باب میں اس پر دوسری رائے تو ہو ہی نہیں سکتی کہ اس کے ہاں بنیادی قضیہ وہی طبقاتی تضاد بنتا ہے جو ترقی پسندوں کو حد درجہ مرغوب رہا مگر یہ بھی ماننا ہو گا کہ اجتماعیت نگاری اس کا بنیادی مئلہ نہیں رہا اور شاید یہی سبب ہے کہ قاسمی کی ہر کہانی کے کردار بطور فرد بھی اپنی شناخت بناتے ہیں۔ یوں دیکھیں تو قاسمی کے کئی کردار ایک موضوع کو کھولتے اور اجتماعی دکھ بیان کرنے کے جتن کرتے ہوئے ایک انسان کی کہانی بھی بن جاتے ہیں۔ ایک ایسی کہانی جس میں کردارمحض کسی ایک طبقے کے نمائندہ نہیں رہتے کئی ہزار انسانوں کی نمائندہ علامت بن جاتے ہیں ۔ یہ جو میں نے قاسمی کی کہانی کے علامت بن جانے کی بات کی ہے تو اس سے کسی غلط فہمی میں نہیں پڑنا چاہیے کہ قاسمی اس علامت نگاری سے بہت فاصلے پر رہا ہے جس کا چلن لگ بھگ دو دہائیوں کا مقبول فیشن رہا ہے۔ خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا تاہم موقع نکل آیا ہے تو کہتا چلوں کہ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ علامت نگاروں کی پسپائی کے بعد علامت نگاری کے امکانات ختم ہوگئے ہیں اور بتاتا چلوں کہ قاسمی کو بھی اس کا احساس تھا جب ہی تواس نے ایک افسانہ نگار خاتون کی کتاب کے دیباچے میں اس کی ایک کہانی کا ذکر کرتے ہوئے ایک مکمل علامت بن جانے کی بات کی تھی ۔اور سچ پوچھیں تواس باب میں یہ بات درست ہے کہ افسانہ اپنے خارج میں مکمل ہو اور اپنے باطنی بہاؤ اور بھید بھنوروں میں کسی بڑی صورت حال کی علامت بن جائے ۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی قاسمی کے افسانوں کے موضوعات کی ‘ اس بارے میں اس کے افسانوں کے مجموعے ’’نیلاپتھر‘‘ کے آغاز میں موجود سطور کی طرف آپ کی توجہ چاہوں گا۔ قاسمی کا کہنا تھا :
’’کسی بھی تخلیق کار کے لیے موضوعات کبھی کمیاب نہیں ہوتے۔ اگر وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے آس پاس موضوعات کم ہو رہے ہیں تو یہ کمی دراصل خود اس کے اندر ہوتی ہے ۔‘‘
(گزارش/نیلاپتھر/احمد ندیم قاسمی)
قاسمی نے یہاں جو’’ کسی بھی تخلیق کار‘‘ کے الفاظ لکھے ہیں تو یقین جانئے اس سے مراد وہی تخلیق کار ہوں گے جو ساری عمر اپنے تخلیقی جذبوں کے ساتھ سچائی سے وابستہ رہتے ہیں ۔ ( میرے قلم نے’’ سچائی‘‘ کی جگہ’’ ایمانداری‘‘ کا لفظ لکھ دیا تھا مگر میرا ماتھا ٹھنکا کہ اس لفظ سے تو کئی بے ایمانوں کی جبینیں شکن آلود ہو سکتی تھیں ‘لہذا اسے ’’سچائی ‘‘سے بدل لیا۔ممکن ہے میری یہ کوشش بھی خام نکلے کہ آج کل مطلق سچ کہیں نہیں ہوتا ۔ صرف اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے جو’’ زمینی سچ‘‘ ہو ۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ زمین پر رینگنے والے سچ کا راستہ اور اس سچ کی زندگی کا مقدر کس طرح متعین کیا جاتا ہے)۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہمارے تخلیق کاروں کی وابستگیاں انہیں محدود موضوعات سے آگے دیکھنے ہی نہیں دیتیں ۔ تاہم قاسمی نے یہ کیا ہے کہ ان حدوں کو توڑا ہے لہذاتخلیق بھی آخری عمر تک اس پر مہربان رہی ہے ۔ میں نے تخمینہ لگایا ہے کہ اس خالص طرز عمل کی وجہ سے اس کے ہاں ایسے افسانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے جن میں کسی خاص نقطہ نظر کی تشریح کرنے کے بجائے کہانی کے اپنے وجود پر اکتفا اور اعتماد کرنے کا چلن اپنایا گیا ہے ۔ اس سے قاسمی کے ہاں موضوعات کی رنگارنگی کا سماں بندھ گیا ہے ۔ کہیں رشتے محترم ہوگئے ہیں تو کہیں خود انسانی وجود‘ کہیں ظالم اس کی نفرت کا نشانہ بنتا ہے تو کہیں وہ رویے جو جہالت کے مظاہر ہو گئے ہیں انہیں رد کیا گیا ہے ۔ عورت کو بھی قاسمی نے بار بار اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے اور ہر بار ‘کم از کم میں نے تو یہی محسوس کیا ہے کہ‘ قاسمی مرد کرداروں کے مقابلے میں عورت کے ساتھ جا کھڑا ہوا ہے ۔
صاحب اوپر میں کچھ افسانوں کو قاسمی کے کامیاب افسانے کہہ آیا ہوں اور کچھ کو اس درجے سے گرادیا ہے تو یقین جانیے ایسا کرتے ہوئے میں نے قاسمی کی افسانہ نگاری کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے دل ہی کے فیصلے کا کہا مانا ہے ۔ میں ان افسانہ نگاروں میں سے نہیں ہوں جو قاسمی کے افسانے کا ذکر آنے پر اسے بہتر شاعر گرداننے لگیں ‘نہ ان شاعروں کو مانتا ہوں جو قاسمی کی شاعری کا ذکر درمیان میں چھوڑ کر اس کے افسانے کا قصیدہ لے بیٹھتے ہیں ۔ ایک سے زیادہ تخلیقی جہات رکھنا میری نظر میں ایک غیر معمولی عطا ہے اور قاسمی غیر معمولی تخلیق کار تھا۔ پھر اس نے جتنی تعداد میں افسانے لکھے یہ بھی کوئی کم غیر معمولی بات نہیں ہے ۔ افسانوں کی اتنی بڑی تعداد میں سب کو ایک معیار کا نہیں کہا جاسکتا اور یہ بات ایسی نہیں ہے جو قاسمی کے قد کو گھٹادے ۔ کسی بڑے افسانہ نگار کے لیے اتنی بات ہی کافی ہوتی ہے کہ اس کے قلم سے چند ایسے فن پارے نکل آئیں ‘جن کے بغیر ذکر کے بغیر فن کی تاریخ نامکمل رہ جاتی ہو۔ تو یوں ہے صاحب کہ وہ افسانے جنہیں میں نے کامیاب کہا انہیں اس یقین کے ساتھ کامیاب مانا بھی ہے کہ ان کے بغیر اردو افسانے کی تاریخ کو مکمل نہیں کہا جا سکتا ۔
***

Sunday, February 15, 2009

سعادت حسن منٹو

سورکہیں کے : پاکستان کے
محمد حمید شاہد

انتظار حسین اور آصف فرخی کی مرتبہ وہ کتاب جو ”پاکستانی کہانیاں“ کے نام سے اُدھر ساہتیہ اکادمی دہلی نے چھاپی تھی ‘اُس میں سعادت حسن منٹو کو پاکرہمارے ہندوستانی دوست ‘ معروف فکشن نگار اور وہاں اردو سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے مشرف عالم ذوقی نے اعتراض اٹھایا ہے کہ اے بھائیو ‘ آپ نے منٹو کو پا کستانی کیوں بنا دیا؟ذوقی کے ذہن میں یہ سوال کیوں در آیا ؟ اِدھر کے کئی اور بھی تو ادیب تھے جن کے دل میں پاکستان کانٹے کی طرح کھٹکتا رہاہے اور جن کی نظر میں پاکستان کے الگ وجود کے کوئی معنی بنتے ہی نہیں ہیں‘ ان کے بارے میں ذوقی نے ایسا کیوں نہ کہا؟ ۔ ایک وجہ تو مجھے صاف صاف دِکھتی ہے کہ اس دوسرے گروہ میں برا لکھنے والوں کی اتنی فراوانی ہے کہ اگر ذوقی ان کے بارے میں ایسا کہہ دیتا تو صاحب کون کافر تھا ‘ جس کے ماتھے پر چنٹ بھی پڑتی ۔ فوراً مان لیا جاتا اور کہہ دیا جاتا کہ لو بھائی یہ تمہارا اپنا ملبہ سے جب چاہو اٹھا لو‘ پھر شکرانے کے نوافل ادا کیے جاتے کہ خس کم جہاں پاک ۔ اتنے چھوٹے سے ملک میں اتنابرا اور اُتھلا لکھنے والوں کی بہتات سے دم گھٹنے لگا ہے ‘ بے شک لے لو کہ تمہارا ہندوستان بڑا ملک ہے وہاں ایک سے ایک برا سمایا ہوا ہے ‘ادھر سے مانگا ہواجتھا وہاں بہ سہولت ان کے اندرکھپ سکتا ہے۔ مگر پیارے ذوقی سچ مانو اور یقین رکھو کہ منٹوایسا اچھا اور سچا لکھنے والا پورے بھارت میں نہیں سما سکتا تھا لہذا وہ اُدھر سے اِدھر اٹھ آیا۔ اگر سما سکتا تو اپنے دوست شیام کے سینے میں ہی سما جاتا ‘ شیام نے کیا منٹو کا بندھا اسباب دیکھ کر صرف دل رکھنے کو نہیں پوچھا تھا:” چلے؟“اور اپنے چوڑے سینے سے بھینچ کر اسے رخصت ہونے کو یہ نہیں کہہ دیا تھا :”سور کہیں کے“ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آخر ذوقی کو منٹو کا پاکستانی ہو جاناکیوں سمجھ میں نہیں آیاجب کہ شیام کومنٹو کا بندھا اسباب دیکھتے ہی یہ بات سمجھ میں آگئی تھی ؟.... اس معاملے میں آصف ”دنیا زاد ۔ ۳۱“ میں بجا طور پر برہم ہوا ہے تاہم اس کاذہن اپنے منتخب کردہ افسانوں کی کتاب کے دفاع اور منتخب کردہ افسانوں کے جوازمیں زیادہ الجھا رہا ۔ میں بھی ذوقی کی طرح انتظار اور آصف کے مذکوہ انتخاب سے کوئی زیادہ خوش نہیں ہوں مگر اپنی ناخوشی کی جو وجوہ ذوقی نے بتائی ہیں ان سے اتفاق کرنا بھی میرے لیے ممکن نہیں ہے ۔ میںاس باب میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں جو اسے مرتبین کی اپنی صوابد اوران کے اپنے ذوق کا معاملہ قرار دے کر ایک طرف ہو جاتے ہیں ۔ اچھا ایک بار پھر منٹو کے حوالے سے اٹھائے گئے ذوقی کے سوال کی طرف آتے ہیں اور یہ گمان باندھ لیتے ہیں کہ ذوقی کی نظر سے منٹو کا لکھا ہوا اپنے دوست شیام کا وہ خاکہ نہیں گزرا ہو گا جس اوپر حوالہ آچکا ہے ۔ ذوقی کے مطابق’ منٹو نے ہندوستان میں جنم لیا ‘ ہندوستان میں دھکے کھائے ۔ممبئی اور تب کے ’بامبے‘ کے فلم اسٹوڈیو میں نوکری کی تھی لہذا وہ ہندوستانی ہوا ۔‘ کہا جا سکتا ہے کہ اے صاحب‘ لگ بھگ اسی وزن کی رسوائیاں ہم نے بھی اس کی جھولی میں ڈالی ہیں ۔ اس نے ممبئی میں جنم لیا تھا تو یوں ہے کہ اِدھر وہ ابدی نیند سوتا ہے ‘ انگریزوں کی حکو مت والے ہندوستان میںاسے فحش نگار سمجھا گیا ‘پاکستان میں بھی تو اس کے حصے میں یہی کچھ آیا‘ دھکے اور فحاشی کے مقدمے ۔ لہذا یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی ۔ذوقی کا مزید کہنا ہے کہ:’منٹو کا ”آئرن مین‘ ‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ ’نو مینس لینڈ‘ کے اس طرف جانے میں یقین نہیں رکھتا تھا ۔ پاگل کہے جانے والے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی فکر بھی یہی تھی کہ ”ہندوستانی کون اور پاکستانی کون؟“ شاید یہی فکر منٹو کی بھی رہی ہو۔‘ذوقی نے مضمون توخوب باندھا تھا مگر اِس ’شاید‘ کے لفظ نے اُس کے دل کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ یہ لفظ چغلی کھاتا ہے کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے اُس پر اُسے خود بھی یقین نہیں ہے ۔ کہ اندر کا شک اُس کی تحریر میں در آیا ہے ۔ اب شک کی بُھربُھری بنیاد پر تعمیر ہونے والی عمارت کی پائیداری کا یقین کون کرے گا۔ سچ یہ ہے کہ منٹو وہ تھا ہی نہیں جو ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ تھا اور یہ بات ذوقی بھی اچھی طرح جانتا ہے ۔ جس نے ٹوبہ ٹیک سنگھ کو پڑھا ہے وہ آگاہ ہے کہ منٹو کے اس افسانے میں پاگلوں کے تبادلے کا فیصلہ تقسیم کے تین سال بعد ہوا تھا جب کہ بشن سنگھ عرف ٹوبہ ٹیک سنگھ کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ سال ہوچکے تھے۔ گویا بشن سنگھ کے پاگل ہونے کا زمانہ لگ بھگ ۴۳۔۳۳۹۱ کا بنتا ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ اس سے بھی چار سال پہلے یعنی ۰۳۹۱ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کے الہ آباد کے جلسے میں اقبال متحدہ اسلامی ریاست کے قیام کا خواب دکھا چکے تھے اور اس سے بھی پہلے یعنی ۰۲۹۱ ءتک قائداعظم کانگریس سے مایوس ہوکر اسے چھوڑ چکے تھے ۔ تقسیم کی طرف لے جانے والے ان جیسے اہم واقعات کے ساتھ بشن سنگھ کے کردار کا کوئی کنارہ تک نہیں ملتا ۔ اب اگر بشن سنگھ عرف ٹوبہ ٹیک سنگھ کے پندرہ سال پہلے پاگل ہوجانے یا قرار دیئے جانے جانے کی کوئی علامتی توجیہہ ممکن نہیں تو اس معاملے میں کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ خود منٹو سے مدد لی جائے۔ منٹو کا اَفسانہ بتاتا ہے :” ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں ۔ اچھا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ دماغ الٹ گیا ۔ اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں داخل کر گئے۔ “یوں طے ہوجاتا ہے کہ افسانے میں بشن سنگھ کے پاگل پن کا جواز ”فرقہ ورانہ فسادات“ سے کسی طورجڑتا ہی نہیں ہے۔ افسانے کے متن میں زیادہ سے زیادہ اس شک کی گنجائش نکلتی ہے کہ اس کے رشتہ داروں نے اس کی زمینیں ہتھیانے کے لیے اُسے پاگل خانے میں داخل کر ادیا ہو گا ورنہ اَفسانہ تو کسی ذہنی دباﺅ کی وجہ سے حواس کھو بیٹھنے کا ذکر کر کے آگے بڑھ جاتا ہے۔ اور ہاں یہ بھی ہے کہ وہ سچ مچ کا پاگل تھا جب ہی تو ہر مہینے ایک ایک انگلی بڑھتی اپنی جوان ہو چکی بیٹی روپ کو ر کو بھی پہچان نہ پاتا تھا ۔ بشن سنگھ اور اس جیسے دوسرے پاگلوں کو سامنے رکھ کر فتح محمد ملک نے اپنے مضمون ”ٹوبہ ٹیک سنگھ: ایک نئی تعبیر“ میں بجا طور پر لکھا ہے :’ ’پاکستان کا قیام بھلا پاگلوں کی سمجھ میں کیوں کر آسکتا تھا“لہذا ذوقی جیسے پیارو جان لو کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ نے ’نو مینس لینڈ ‘ میں مر کر وہی کیا جو ایک پاگل کر سکتا تھا اور منٹو کو وہ لکیر پھاند کر اِدھر آنا پڑا کہ ُاس کے شعور نے اُسے یہی سجھایا تھا ۔ذوقی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’منٹو کی کہانی ” کھول دو“ بھی اُس کے پاکستانی نہ ہونے کی روداد سناتی ہے۔ میں ذوقی کے اس دعوی کو یوں باطل سمجھتا ہوں کہ یہی کہانی مجھے اُس کے پاکستانی ہونے کی کہانی سناتی ہے ۔ پاکستان آنے کے بعد منٹو نے جو دو پہلی کہانیاں لکھیں ان میں ”کھول دو“ شامل ہے ۔ ذوقی نے دوسری کہانی کا نام نہیں لیا ‘میں لیے دیتا ہوں ....” ٹھنڈا گوشت“ ۔ ترتیب میں یہ منٹو کی پہلی پاکستانی کہانی بنتی ہے ۔ اس کہانی کا ’گرم سکھ ‘ کیسے ’ٹھنڈا‘ ہوگیا تھا ۔ کلونت کور جیسی عورت اُس کے سامنے کیوں بے بس ہوگئی۔جب ہنگامے ہوئے اورلوٹ مچی‘ ایشرسنگھ نے ایک گھر میں گھس کر چھ مردوں کو مار ڈالا اور جوان سال خوب صورت لڑکی کو کندھے پر اٹھا لایا تو وہ اس کے کندھے پر وہ لڑکی خود بخود کیسے مر گئی تھی ۔ میں جتنا غور کرتا ہوں ‘ اتنا ہی ساری صورت حال میرے اندر آئینہ ہوتی جاتی ہے۔ جہاں یہ اَفسانہ میرے اندر فسادیوں اور لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف نفرت اُبھارتا ہے ‘وہیں مجھے ایک حساس پاکستانی سے بھی ملاتا ہے۔ ایسا پاکستانی جو فسادات اور قتل وغارت گری کو نفرت اور دُکھ سے دیکھتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنے خوابوں کی سرزمین کی طرف دیکھنے والوں کے ساتھ ایسا ہوتا ۔ ذوقی ادھر دھیان دیتا تو یہی اَفسانہ اسے منٹو کے ہندوستانی نہ رہنے کی داستان بھی سنا دیتا ۔ یہ وہ اَفسانہ ہے جسے قاسمی نے یہ کہہ کر چھاپنے سے انکار کر دیا تھا:” منٹو صاحب ‘ معاف کیجئے ‘ اَفسانہ بہت اچھا ہے لیکن نقوش کے لیے بہت گرم ہے “لہذا منٹو نے نقوش کے لیے دوسرا اَفسانہ لکھا.... مجھے کہنے دیجئے کہ....اپنا دوسرا پاکستانی اَفسانہ .... ’ ’ کھول دو“۔ اور یہ وہی فسانہ ہے جو ذوقی کو مغالطے میں ڈالتا ہے ۔ ”کھول دو“ کو سمجھنے کے لیے قیام پاکستان کے بعد کے بدلے ہوئے منٹو کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ میں اُس تبدیلی کی بات کر رہا ہوں جو حسن عسکری کو بھی نظر آ گئی تھی اور ممتاز شیریں کو بھی .... مگر حیف کہ ایک ذوقی کو نظر نہیں آتی۔منٹونے ”زحمت مہر درخشاں“ میںلکھا تھا کہ پاکستان آنے کے بعد یہ الجھن پیدا کرنے والا سوال اس کے ذہن میں گونجتا رہا:” کیا پاکستان کا ادب علیحدا ہوگا۔ اگر ہوگا تو کیسے ۔ وہ سب کچھ جو سالم ہندوستان میں لکھا گیا ‘اس کا مالک کون ہے۔ کیا اس کو بھی تقسیم کیا جائے گا۔ کیا ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے بنیادی مسائل ایک جیسے نہیں ۔ کیا ادھر اردو بالکل ناپید ہو جائے گی۔ یہاں پاکستان میں اردو کیا شکل اختیار کرے گی ۔ کیا ہماری اسٹیٹ مذہبی اسٹیٹ ہے ۔ اسٹیٹ کے تو ہم ہرحالت میں وفادار رہیں گے ‘ مگر کیا حکومت پر نکتہ چینی کی اجازت ہوگی “....اور....” آزاد ہو کر کیا یہاں کے حالات فرنگی عہد حکومت کے حالات سے مختلف ہوں گے“اب مجھے ایک دفعہ پھر روئے سخن ذوقی کی جانب کرنا ہے اور اُس کے دل سے پو چھنا ہے کہ اے پیارے‘ خدا لگتی کہو ‘ پاکستان بننے کے بعد‘ پاکستان کے حوالے سے‘ دل سے پاکستانی بنے بغیر اتنے بنیادی سوالات کیا منٹو کے تخلیقی وجود کا حصہ ہو سکتے تھے ؟۔ تو یوں ہے کہ منٹو پاکستان آیا اور پاکستان کا وفادار ہو گیا ۔ وہ تقسیم سے پہلے تقسیم کا مخالف تھا.... مانتا ہوں ضرور تھامگرجب وہ یہاں آیا تو اُس کے یہاں بہت اُجلے خوابوں نے ڈیرے ڈال دیے تھے جہاں جہاں اسے ٹیڑھ نظر آیا وہاں وہاں اس نے بھر پور چوٹ لگائی ۔ اَفسانہ ”کھول دو“ بھی ایسی ہی شدیدچوٹ ہے۔ ایک سچے پاکستانی کی اُس معاشرتی روےے پر بے رحم چوٹ جس نے ہمارے سنہرے خوابوں کو گدلا دیا تھا ۔ ذوقی نے یہ بھی لکھا ہے :’منٹو بے چارہ.... ۷۴ کی تقسیم کے بعد ۸۴ میں پاکستان گیا وہ بھی اپنی بیوی کے زور دینے پر اور ۵۵ میں اس کی موت ہوگئی‘ذوقی اس طرح منٹو کو ”بے چارہ“ لکھ کر اور ایک ہی جملے میں اسے پاکستان پہنچا اور مار کر اُس سے اُس کی پاکستانیت نہیں چھین سکے گا کہ ِاس باب میںمنٹو بہت کچھ کہہ کر مرا ہے ۔یہ اس کے افسانوں میں بھی موجود ہے اور اس کی دوسری نثری تحریروں میں بھی ۔ منٹو کے دوست کے حوالے سے جس تحریر کا اوپر میں ذکر کر آیا ہوں اُسی میں بتایا گیا ہے کہ تقسیم کے ہنگاموں کے دوران ایک مرتبہ منٹو نے اپنے دوست شیام سے پوچھا تھا:” میں مسلمان ہوں ‘ کیا تمہارا جی نہیں نہیں چاہتا کہ مجھے قتل کردو“ شیام نے سنجیدگی سے جواب دیا تھا:” اِس وقت نہیں .... لیکن اُس وقت جب کہ میں مسلمانوں کے ڈھائے ہوئے مظالم کی داستان سن رہا تھا.... میں تمہیں قتل کر سکتا تھا“ منٹو نے یہ سنا تو اس کے دل کو بہت دھچکا لگا تھا ۔ جب ہندو اور مسلمان دھڑا دھڑ مارے جارہے تھے تو شیام جیسے دوست کا”اِس وقت‘ ‘ کبھی بھی ”اُس وقت“ بن سکتا تھا۔ منٹو نے بعد غور کیا ....پھر فیصلہ کیا ‘ بیوی کے اصرار پر نہیں خود فیصلہ کیا اور اپنا اسباب باندھ لیا ۔ شیام نے منٹو کو روکا نہیں ‘ بندھا سامان دیکھ کر صرف اتنا کہا ”چلے “ اور منٹو کے ”ہاں“ کہنے پر اسے کو ئی حیرت نہیں ہوئی اس نے سامان بندھوانے میںمنٹو کا ہاتھ بٹایا‘ برانڈی کی بوتل نکالی ‘دوپیگ بنائے اور کہا ”ہپ ٹلا“ پھر قہقہے لگا کر سینے سے لگایااور کہا ”سور کہیں کے“منٹو نے آنسووں کو روکا اور جواب دیا” پاکستان کے“.... اور.... سیدھا اپنے ملک پاکستان چلا آیا۔٭٭٭

راجندر سنگھ بیدی

بیدی کی عورت اور فاروقی کا غصہ
محمد حمید شاہد

الفریڈی جیلینک نے اپنی تخلیقات میں اس بات کو موضوع بنایا ہے کہ ادب کی نئی دنیا میں مرد کاپلڑا بھاری ہے ‘اس کا زورچلتا ہے جب کہ زندہ گوشت پوست والی مکمل اور بھر پور عورت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اور یہ کہ لکھنے والوں کے ہاں عورت کی پیش کش کا تصورپہلے سے ساختہ یعنی sterrotype ہے ۔ بنا بنایا اور گھڑا گھڑایا۔ ‘ لگ بھگ اسی عنوان سے شمس الرحمن فاروقی نے راجندر سنگھ بیدی کے نام بھی چاج شیٹ جاری کی ہے ۔ بیدی پر الگ سے اور جم کر شمس الرحمن فاروقی نے کچھ نہیں لکھا اور اس کا اسے اعتراف بھی ہے ‘ تاہم شہزاد منظر کو دیئے گئے انٹرویو (مطبوعہ روشنائی کراچی: شمارہ۔۴۱) میںاس نے بیدی کی عورت کا امیج اسٹیریو ٹائپ قسم کا قرار دے دیا۔ اس مکالمے میں پہلے توشمس الرحمن فاروقی نے ان خواص کی گنتی کی ‘جن سے بیدی کی فکشن کام مقام متعین کرتے آئے ہیں اور پھر اس تناظر میں بیدی کی بڑائی کو معرض شک میں ڈال دیا ۔ شمس الرحمن فاروقی کی بیدی سے شکایت کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ یہ جو ہندوستان اور پاکستان میں عام طور پرعورت کے بارے میں تصورات پائے جاتے ہیں کہ عورت گھریلو جانور ہوتی ہے ۔ عورت میں مامتا ہوتی ہے ‘ وہ نرم دل ہوتی ہے ‘ لوگ اس پر بہت ظلم کرتے ہیں‘ وہ سخت دُکھ اٹھاتی ہے ‘ تکلیفیں برداشت کرتی ہے ‘ وہ محبت کی دیوی ہوتی ہے ۔ یہ سب بیدی کے ہاں در آئے ہیں ۔ اور یہ کہ بیدی نے عورت کے موضوع پر جو کچھ لکھا ہے اس سے اس کے افسانوں میں عورت کا امیج خاصا اسٹریو ٹائپ قسم کابنتا ہے ۔ شمس الرحمن فاروقی کے نزدیک بیدی نے عورت کی زبوں حالی کواپنے افسانوں میں approveکیا بجائے اس کے کہ اس صورت حال کو ظاہر کرکے وہ عورت کے بارے میں کوئی alternative image پیش کرتا کہ عورت ایسی ہونی چاہیے یا عورت ایسی ہے یا وہ اندر سے ایسی ہے لیکن ہم لو گوں نے اور اس نظام اقدار نے عورت کو اتنا مظلوم بنادیا ہے۔ اس قصور کی نشاندھی کرکے شمس الرحمن فاروقی بیدی ‘اس کے افسانے اور اس کے افسانوں کے کرداروں اور خاص طور پر اس کی عورتوں پر خوب برسا۔ پھر کئی کرداروں کے نام لےے اور کہا ان اسے غصہ آتا ہے۔ طرفہ دیکھئے کہ یہی بیدی کے تخلیق کردہ عورت کے وہ کردار ہیں جنہوں نے اردو فکشن کو باثروت بنایا اور اب یہ بیدی کی کہانیوں سے نکل کر ہمارے دلوں میں بسنے لگے ہیں ۔بیدی کی جن عورتوں پر شمس الرحمن فاروقی برہم ہے ان میں ”لاجونتی“ بھی شامل ہے ۔ پچھلے دنوں جب میںسارک ممالک کے تخلیقی ادب کا انتخاب کر رہا تھا تو بیدی کے بارے میں سوچتے ہی میرا دھیان فوراً ”لاجونتی “کی طرف گیا تھا ۔ اب شمس الرحمن فاروقی کو اس پر یوں برہم ہوتے پایا تو اپنے تئیں اردو فکشن کو اس کے بغیر دیکھنا چاہا۔ اب کیا بتاﺅں صاحب ‘ جہاں سے ”لاجونتی “ کو نکال پھینکا گیا تھا ‘وہاں ایک بہت بڑا کھانچا پڑ ا میں صاف دیکھ رہا تھا۔ اور یہ کھانچا ایسا تھا کہ کسی اور حیلے سے پاٹا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ دیکھئے جی ‘ اگرمغویہ لاجونتی‘ غیر مردوں کے بیچ دن گزار کر پلٹی تھی ‘یوں کہ وہ خالص اسلامی طرز کا لال دوپٹہ اوڑھے ہوئے تھی ‘ بائیں کو بکل مارے ہوئے‘ اور عین ایسے دنوں میں سے کچھ دن ادھر گزارے تھے جن میں کئی کئی عورتیں فسادیوں کی ہوسناکیوں کا شکار ہورہی تھیں ‘ اپنی عصمت اور عفت کو بچانے کے لیے زہر پھانک رہی تھیں‘ کوٹھوں سے چھلانگ مار رہی تھیں یا پھر کنوﺅں میں کود رہیں تھیں.... اور وہ آئی تھی ....یوں‘ کہ سامنے اس کا مرد بالکل بدلا ہوا تھا ‘ اسے لاجو نہیں ‘ دیوی کی طرح دیکھ رہا تھا۔ اسے دھنک ڈالنے والا مرد‘ بچھ بچھ رہا تھا اور جو اس پر بیت چکی تھی وہ سننا ہی نہ چاہ رہا تھا ۔ تو صاحب‘ یہ سندر لال تو وہ نہ ہوا جسے لاجو جانتی تھی.... جانتی تھی اور دل سے مانتی تھی ۔ اس کا اپنا مرد جو پہلے اس کے ساتھ وہ کچھ کرتا تھا کہ بس وہی جانتی تھی مگر یوں کہ وہ اس شباہت کے ساتھ اس کی نفسیات کا حصہ ہو گیا تھا.... تو لاجونتی کے اس طرز عمل کے اس کے سوا اور کیا معنی نکل سکتے ہیں کہ وہ اپنی توہین برداشت نہیں کر پارہی ۔ ’ ’شی فیل ویری اِن ہیلیٹڈ“ یہ بات امریکہ سے بیدی پر کام کرنے ہندوستان آنے والی ماڈرن قسم کی عورت جمیلہ رفیلمین کو فوراً سمجھ آگئی تھی۔ اور ‘ میں نہیں جانتا میرے محترم اور میرے پیارے شمس الرحمن فاروقی کو اس پر کیوں طیش آیا۔اچھا ‘ یوں کرتے ہیں کہ اسی ہلے میں بیدی کے افسانہ” متھن“ کے ایک کردار ”کیرتی“ کو بھی ایک جھلک دیکھ لیتے ہیںکہ اس پربھی شمس الرحمن فاروقی بہت برہم ہے ۔ اسے شکوہ ہے کہ بیدی نے زبردستی اسے اس صورتحال میں ڈال دیا ہے‘ حالاں کہ اسے گرنے سے بچایا جا سکتا تھا اور شمس الرحمن فاروقی کو کیرتی پر غصہ اس لیے آیا ہے کہ اس نے مورتیاں بنانے کی بجائے کوئی اور ذریعہ کیوں نہ اپنالیا ؟.... واہ صاحب واہ‘ یہ بھی خوب کہی ‘ انسانی نفسیات کی وہ گرہ جو بیدی نے چٹکی میں کھول دکھائی ہے ‘ وہی بیدی کی نااہلی ٹھہری اور جو اَب ایک انوکھے مطالبے کے ساتھ ہاتھوں سے لگائی جا رہی ہے دانتوں سے بھی نہیں کھل پا رہی۔ اس نئی منطق کو مان لیں تو ہمارے لیے ادبی سرمائے کا غالب حصہ لائق اعتنا نہیں رہے گا۔ میں شمس الرحمن فاروقی کر تحریر کا گرویدہ ہوں ۔ نیا زاویہ نکالنا‘ بات کو بڑے اعتماد اور سلیقے سے آگے بڑھانا اسے آتا ہے ۔ یہ اوصاف اس کی دلیل میں زور پیدا کر دیتے ہیں ۔ اسی لیے ممکن ہے ‘جس کی نگاہ میں اس افسانے کی خوب صورتیاں ‘ باریکیاں ‘نفاستیں اور نزاکتیں نہ ہوں وہ اس کی یہ دلیل مان بھی چکا ہو مگر میں کیا کروں کہ شمس الرحمن فاروقی کے تنقیدی شعور کا گرویدہ ہو کر بھی اور کئی معاملات میں اس سے مرعوب ہوتے ہوئے بھی یہ منطق ہضم نہیں کر پایا ہوں۔ سچ پوچھئے تو میں منٹو کو بہت مانتا ہوں .... بڑا افسانہ نگار ۔ اردو فکشن پر اس کے بڑے احسان ہیں‘ اس نے کہانی کو چست کیا اور اس کی Pace میں اضافہ کرکے اس کی اثر انگیزی میں جادو بھر دیا‘مگر جب بیدی کی کردارنگاری پر نگاہ پرتی ہے تو بہت سے مقامات ایسے بھی آتے ہیں کہ وہ منٹو سے کہیں آگے نکلتا صاف دکھائی دیتا ہے ۔ ” متھن “ کی کیرتی بھی ایسے ہی کرداروں کی ذیل میں رکھی جا سکتی ہے۔ بیدی نے ان کرداروں کو زندگی کی عام شاہراہ سے اٹھایا ہے.... انہیں‘ جیسے وہ تھے اور جس صورت حال میں وہ پڑے ہوئے تھے ‘ ویسے ہی اور وہیں پڑے ہوئے دکھایا ہے سہارے دے دے کر وہاں اٹھایا نہیں اور اپنی طے شدہ فکری ہَلاس میں ہشکارے مار مار کر انہیں وہاں سے نکالا بھی نہیں تاہم اس کا اہتمام ہو گیا ہے کہ وہ کردار گرا پڑا ہو کر بھی ہمیں ساتھ ملا لے اور ان سارے سماجی عوامل پر ازسر نو سوچنے پر مائل کر دے جس نے ان کرداروں کو بقول شمس الرحمن فاروقی ”اسٹیریو ٹائپ“ بنادیا ہے ۔ صاحب اگر اسے’ کچھ اور suggest کرنا‘ نہیں کہتے تو اور کسے کہتے ہیں؟۔ اور ہاں‘ جہاں تک افسانے ”متھن “ کا معاملہ ہے تو مجھے بیدی سے‘ اگر کوئی شکایت ہو سکتی تھی تو اس افسانے کے عنوان کے حوالے سے ہو سکتی تھی۔ ”کیرتی“ کے بجائے ”متھن “کیوں؟ ۔ ہاں کیرتی ہی اس کا عنوان سجتا اور پھبتا بھی‘ مگر اب جو شمس الرحمن فاروقی نے جھاڑ پچھوڑ کے بعد بیدی کی عورتوں کے عیب گنوائے ہیں تو سوچتا ہوں میں افسانہ ”متھن “ پڑھتے ہوئے کیرتی کے ساتھ اتنا وابستہ ہو کر بیدی سے کیوں گلہ گزار ہوا ۔چلو اس لہذا سے اچھا ہی ہوا کہ وہ اس کا نام ایک خام‘ غصہ دلانے اور جانجھ میں لانے والے واجب القطع کردار کے نام پر افسانے کا عنوان رکھنے سے بچ گیا۔ مگر اجات ہو تودست بستہ عرض کرنا ہے کہ جس صورت حال میں کیرتی پڑی ہوئی ہے کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ پہلے اس کو دیکھ لیا جائے اور ان امکانات پر سوچ لیا جائے کہ کیا افسانہ نگار کے مصنوعی سہارے کے بغیر کیرتی وہاں سے نکل سکتی تھی؟۔ صرف اٹھارہ‘ انیس سالہ خوب صورت کیرتی.... جس کا باپ شلپ بناتا فن کی خدمت کرتا دو روٹیوں کے بیچ مر گیا تھا۔ٹیٹنس سے اور کتے کی موت۔ کیرتی کو وراثت میں بھوک ملی یا وہ بیمار ماں ‘ جسے مقعد کا سرطان تھا.... اور ہاں اسے شلپ بنانے کا فن بھی تو باپ نے مرتے مرتے دیا تھا۔ گھر میں اوزار پڑے تھے ‘ شلپ بنانے کا ہنر ہاتھ میں تھا‘ ماں چھاونی کے ہسپتال میں پڑی تھی‘ اس کے پیٹ میں سوراخ کر کے بول و براز خارج کرنے کو جو بوتل لگائی گئی تھی وہ خراب ہو گئی تھی ۔ فوری بوتل بدلنا اور پھر اس کا آپریشن بہت ضروری ہو گیا تھا۔ ایسے میں کیرتی کوشلپ بنانے والے اوزاروں اور وراثت میں ملے ہنر پر تین حرف بھیجنے کا مشورہ ؟....تو بس یوں ہے کہ میں کیرتی کے ساتھ ہوں جو اس نے کیا ‘اسے ویسا ہی کرنا چاہیئے تھا ۔ تاہم میں جب بھی اس کہانی کو پڑھتا ہوں مجھے غصہ کیرتی پر نہیں آتا اس سماج پر آتا ہے جس میں کیرتیاں متھ بھری مورتیاں بنانے کی بجائے نیوڈ بنانے لگتی ہیں ۔ یہ جو شمس الرحمن فاروقی نے نتیجہ نکالا ہے کہ بیدی ظلم سہنے ا ور مار کھانے والی عورت‘ یعنی فیملی کریکٹر بناتے ہوئے ایسا manipulate کرتا ہے گویا کہ وہ اسے approueکر رہا ہے‘ مجھے بجا معلوم نہیں ہوتا اس باب میں محمد عمر میمن ہی کا کہا دل کو بھاتا ہے کہ بیدی بظاہر جس کریکٹر کو approveکر رہا ہوتاہے دراصل اسے dis-approve کررہا ہوتا ہے ۔ میں اس میں طرف اتنا اضافہ کروں گا کہ ایسا ‘ صورت حال کی اسی manipulation سے ممکن ہوا ہے جس پر شمس الرحمن فاروقی کو اعتراض ہے ۔آغاز میں جیلینک کی کہی ہوئی بات کرکے میں فوراً بیدی کی طرف آگیا تھا اور اب یاد آیا ہے مجھے اس ضمن میں کچھ اور بھی کہنا تھا ‘ کیا کہنا تھا؟ اوہ‘ میرے ساتھ عجب ہاتھ ہو گیا ہے جی ‘ پہلے سب کچھ ذہن میں تازہ تھا‘ تازہ اور مربوط ‘ مگر اب‘ سب کٹ پھٹ گیا ہے۔ اچھا یوں کرتا ہوں کہ جیلنیک کے بارے میں جو کچھ میں جان پایا ہوں وہی آپ کو بتائے دیتا ہوں ۔ ہاں تو یوں ہے کہ جیلنیک کے ہاں جو موضوعات تکرار کے ساتھ اس کے تخلیقی تجربے کا حصہ بنے‘ وہ تھے جنسی امتیاز اور تشدد۔ لیجئے صاحب پہلے ہی جملے پر پوری بات یاد آئینہ ہو گئی کہ ایسے عورت زدہ لکھنے والوں اور لکھنے والیوں کی باڑھ ہمارے ہاں بھی آتی ہی رہتی ہے ۔ جیلینیک کے ساتھ یہ ہوا ہے کہ وہ ویسی عورت نہ لکھنے ‘کہ جیسی وہ تھی ‘ اور اسے اسٹریو ٹائپ قرار دے کر زندہ گوشت والی عورت کی طرف راغب رہنے کی وجہ سے فحش نگار کہلائی اور شدید تنقید کا نشانہ بنی .... اور آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے ہاں بھی جب جب سماج کی اس عورت سے اس کا اپنا چلن‘ اپنی سوچ اور اپنی زبان چھین کر لکھنے والے نے اسے اپنے کندھوں پر اٹھالیا اور کہانی کے فریم ورک میں وہ نہ محسوس کرایا جو اسے کہنا تھا تو اس کا نتیجہ ادیب کے حق میں ہمیشہ اچھا نہ نکلا ۔ اس پر اسی قسم کے الزامات لگے جیسے جیلینیک پر لگے تھے اور اسے متنازعہ بنادیا گیایاپھر اگر وہ بہت باکمال لکھنے والا نکلا تو بھی اس کے ایسے کرداروں کو پورے سماج کی نمائندگی نہ مل سکی ۔ بہر حال یہ اعزاز بیدی کو جاتا ہے کہ اس نے عورت کو جس روپ میں بھی لکھا اس روپ میں عورت اسی دھرتی پر پورے قدموں سے چلتی تھی‘ اسی وسیب میں بسی ہوئی اور اسی تہذیب کے اندر سے پھوٹی ہوئی ۔ اس نے بے شک اس کے منہ میں اپنی زبان نہیں دی اور اپنا سوچا ہوا چلن اس کے لیے نہیں چنا مگر اس نے عورت سے اس کی اپنی زبان چھینی ‘نہ اپنے تصور اور افکار کے کندھوں پراسے اٹھایا ۔ اس کے باوصف اسے جو کہنا اور جو کچھ سجھانا تھا وہ پوری طرح قاری کو سوجھ جاتا ہے ۔

انتظار حسین

اِنتظار حسین کو سمجھنے کے جتن
محمد حمید شاہد

جب سے مجھے یہ کہا گیا ہے کہ انتظار حسین پر بات کرنی ہے میرے اندر عجب سی بے کلی دوڑ گئی ہے ۔ اس کَھدبَد کا سبب اِس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ مجھے بات کرنے کے لیے آغاز نہیں مل رہا‘ ایسا آغاز جو بات کو پھیلاو ¿ کی طرف نہ دھکیلے اور اس امر کی ضمانت دے کہ میرے اس کوشش سے انتظار کی کہانیوں کی تخلیقی فضا روشن ہو کر سامنے آجائے گی۔ میری مشکل یہ ہے کہ جس انتظار کو میں مانتا ہو ں وہ ”آخری آدمی“ ”زرد کتا“ اور ”شہر افسوس “والا انتظار ہے اوراسے حد تک مانتا ہوں کہ اس باب میں اس جیسا کوئی اور نہیں مانتا‘ تاہم جب جب اِس اِنتظار کی بات کرنا چاہتا ہوںایک اور انتظار اپنے تنقیدی بیانات کی کھڑگ اٹھائے راہ روک کر ادھر کو لڑھا لیتا ہے ....تویوں ہے ‘ کہ پہلے اِن تنقیدی الجھیڑوں سے نبٹ لیں گے تو بات سہولت سے آگے بڑھ پائے گی۔ صاحب دیکھیے تو کتنی اُلجھانے والی بات ہے کہ عین اس زمانے میں بھی کہ جب ہر کہیں طبعزاد کہانی کاشہرہ ہے انتظار کے دل کو طبعزاد کہانی کا مطالبہ سرے سے بھاتا ہی نہیں ہے ۔ ۶۰۰۲ءمیں چھپنے والی اپنی کتاب ”نئی پرانی کہانیاں“ کے ابتدائیے میں اس نے طبع زاد کہانی کے مطالبے کونئے زمانے کے تعصبات کہا ۔ ایسے تعصبات جن کی وجہ سے کہانی کی روایت بیچ کھنڈت پڑ گئی ہے ۔ اس مسئلے کو انتظار نے بہت گھما پھرا کر اور بار بار لکھا ہے۔ کبھی تو اسے سماعی روایت کے رکنے کا سانحہ کہا ‘ کبھی اس بہانے پرنٹنگ پریس کو برا بھلا کہا جو دھڑا دھڑ نئی کہانی چھاپ رہا ہے اور کبھی ہاتھ مل مل کر تشویش کا اظہار کیا کہ لو جی کہانی کی راہ تو اب کھوٹی ہو ئی ہے۔ وہ زمانہ گیا جب افسانہ لکھا جاتا تھا ۔ وہ زمانہ کہ جب لمبی اور کالی رات میں الاﺅ دہکتا تھا لوگ باگ اسی الاﺅ کے گرد بیٹھتے تھے تو بھیگتی رات کے ساتھ کہانی بھی ٹھل پڑتی تھی ۔ بقول انتظار:” قدیم زمانے کے الاﺅ سے لے کر میری نانی کی انگیٹھی تک کہانی کی تاریخ اسی طرح چلی ہے۔ “(اِنتظار حسین/” اَدب اور سماعی روایت“ )یہ جو نئے زمانے کی کہانی کو نظر انداز کرنے کے لیے انتظار کے اوپر نیچے بیانات آئے چلے جاتے ہیں تو انہی بیانات کے بیچ مجھے انتظار کے افسانوں کا وہ مجموعہ یاد آتا ہے جو ۲۵۹۱ ءمیں چھپا تھا۔ میری مراد اس کے افسانوں کی پہلی کتاب ”گلی کوچے “ ہے جس کا دیباچہ پڑھ کر گماں گزرتا ہے کہ تب تک نانی کی انگیٹھی تک چلی آنے والی قصہ کہانی کی بعد میں بے چاری ہو جانے والی روایت کے دکھ کو اس نے اپنی چھاتی میں نہ بسایا تھا ۔ اس کتاب کی کہانیاں پڑھ لیجئے ”قیوماکی دکان “ سے لے کر ”استاد“ تک‘ تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تو اُسی ٹھیٹھ سماجی حقیقت نگاری کی روایت میں لکھی گئی تھیں جو بعد میں انتظار کو کھلنے لگی تھی ۔ اس کتاب کے ”خریدو حلوا بیسن کا“ ”چوک“ ”اجودھیا“ ” پھر آئے گی“” عقیلہ خالہ“ ” رہ گیا شوقِ منزلِ مقصود“ اور”روپ نگر کی سواریاں“ جیسے افسانوں کو ذہن میں تازہ رکھ کر انتظار کایہ تازہ ترین اعترافی بیان بھی سن لیجئے جس کے مطابق انتظار کا پہلا عشق کرشن چندر کا افسانہ تھا ۔ افسانہ کرشن چندر کا مگر زبان سرشار کی ۔ یہیں رہ رہ کر حسن عسکری کا اس کتاب کے حوالے سے ایک مختصر سا مضمون یاد آتا ہے ‘وہی مضمون‘ جس میں عسکری نے کہا تھا کہ کتاب کے سبھی افسانوں کی فضا ‘ کردار‘ مکالمے بالکل ایک جیسے ہیں اور یہ کہ انتظار کواپنے کرداروں کی زندگیوںسے بس اتنی ہی دلچسپی رہی ہے جتنی کہ وہ اپنے شہر یا اپنے علاقے میں نظر آتی ہے۔ عسکری کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس علاقے سے ان کرداروں کو الگ کر لیں تو وہ بالکل مردہ ہوکر رہ جاتے ہیں ۔ ان کرداروں کی پیچھے رہ جانے والے علاقے ہی میں چلت پھرت سے عسکری نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ انتظار نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا‘ اپنے کرداروں کی اندرونی کمزوری کو چھپا لیا اور رِقّت کو لبھاﺅ میں بدل کر افسانوں کا انجام آسان بنالیا۔ بقول اُس کے یہ بھی ایک قسم کی ادبی الاٹمنٹ تھی۔ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مضمون عسکری نے تب لکھا تھا جب تقسیم کو ابھی پانچواں برس بھی مکمل نہ ہوا تھا ۔ اس تناظر میں دیکھیں تو”ادبی الاٹمنٹ “کے طعنے کی معنویت اور اس کی سفاکی کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہتا۔صاحب ہو نہ ہو‘ مجھے تو یہی گمان گزرتا ہے کہ انتظارکے دل پر عسکری کی اس چوٹ نے خوب اثر دکھایاتھا۔ ”گلی کوچے“ میں ۰۵۹۱ءتک کے افسانے شامل تھے جب کہ دوسرا مجموعہ ”کنکری “ ۵۵۹۱ ءمیں چھپا گویا عسکری کی چوٹ لگانے تک انتظار نے اسی رنگ کی کئی کہانیاں تب تک لکھ لی ہوں گی باقی کے افسانوں میں بھی یاد کے سہارے کہانی کا چلن برقرار رکھا اور ثابت کرنا چاہا کہ وہ وار جو عسکری نے کیا تھا‘ وہ اسے پی گیا تھا ۔ مگر میں جو انتظار کے سارے افسانوں کو ایک ساتھ رکھ کر پڑھتا ہوں اور پھر بعد میں یعنی ۷۶۹۱ ء میںآنے والے مجموعے” آخری آدمی “اور بعد کے مجموعوں کی بابت سوچتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جوانتظار نے ایک بار ہاتھ لگانے پر بیر بہوٹی کے مکر بھرنے اور انٹو انٹی کھٹوانٹی لینے کی بات سنائی تھی تو یوں ہے عسکری کے بیان کے بعد کچھ عرصہ تک بیر بہوٹی کا چلن خود انتظار نے اپنائے رکھا ۔ گویاسنا تھا نہ کچھ پڑھا تھا۔ پھر جب یار لوگ عسکری کے مذکورہ مضمون کو بھول بھلا گئے تو جھٹ انگڑائی لی اور کہانی کا چلن بدل کر رکھ دیا۔ اب کے انتظار نے جوکہانی لکھی اس کی دھج ہی الگ تھی ۔ ان کہانیوں کے ذریعے ایک نیا معنیانی نظام متشکل ہوا ۔ بدلے ہوئے انتظار کے سامنے ہند مسلم تہذیب اور وہ انسان تھا جو پاﺅں کی مٹی جھاڑ کرتاریخی اورتہذیبی روایت میں دور کی زمینوں اور زمانوں کا سفر کرتا تھا۔ وہ آدمی جو گلی کوچوں سے جڑ کر ہی معتبر نہیں ہوتا تھا کہ اس کے روحانی اور داخلی تقاضے اس کے بدنی تقاضوں سے کہیں اعلی‘ برتر اور اہم ہو گئے تھے۔ جب میں نے ”آخری آدمی “کی کہانیوں کو پڑھا تھا کہ جن میںصوفیائے کرام کے ملفوظات تھے ‘ عہد نامہ عتیق کی خاص فضا تھی اور داستانوی کردار کہانیوں کے متن کا حصہ ہوکر انسان کو برتر سطح وجود پر جینے کا چلن سجھا رہے تھے تو ساتھ ہی سجاد باقر رضوی کے دیباچے کے ا ہتمام نے چونکایا بھی تھا۔ اس دیباچے میں قیام ِپاکستان کو ہندی مسلمانوںکی بھٹکتی روح کو جسم ملنے کے متراف قرار دینے کے بعد انتظار کے افسانے کو قومی وجود کی تشخیص کی کوشش قرار دیا تھا۔ وہ چوٹیں جو عسکری نے لگائی تھی آپ کو یاد ہیں نا‘ اور وہ کردار بھی جو پیچھے رہ جانے والی گلیوں ہی میں زندہ رہ سکتے تھے۔ وہ کردارجو بقول عسکری غیر حقیقی نہیں تھے‘ عین مین حقیقی تھے مگر تھے شکست خوردہ اور خود افسانہ نگار کو بھی شکست زدہ بنا رہے تھے۔ ہاں اگر یہ سب آپ کو یاد ہے تو انتظار کی نئی جون لیتی ان کہانیوں کو پڑھ کر ماننا پڑھے گا کہ عسکری نے جو کہا تھا اس نے انتظار کو اس نئی راہ پر ڈال دیا تھا تب تک سماجی حقیقت نگاری ‘ طبعزاد کہانی یا نئی کہانی سے اسے کوئی شکایت پیدا نہ ہوئی تھی۔ خود انتظار نے اپنی ایک تازہ تحریر میں مانا ہے کہ تقسیم اور فسادات کی بحث میں عسکری اور ممتاز شیریں نے جو سوال کھڑے کیے تھے اس نے انتظار کا کرشن چندر والی سماجی حقیقت نگاری سے عشق ماند کر دیا تھا گویا انتظار نے یہ کوچہ خود نہیں چھوڑا تھا عسکری نے چھڑوایا تھا اور یہ جو وہ آدمی کو برتر سطح وجود پر جینے کی تلقین کرنے لگا تھا ”آخری آدمی “ ”زرد کتا “ اور” ہڈیوں کا ڈھانچ “ جیسے افسانوں میں‘ کہ جن میں مادی اور جسمانی خواہشات ہیچ ہو جاتی ہیں‘ آدمی لالچ اور حرص و ہوس سے بلند ہونے کی طرف راغب ہو جاتاہے یا پھرکافکا کی کہانی”میٹا مارفوسسز“ جیسا افسانہ ”کایا کلپ “ میں بے ہمت آدمی کے مکھی بن جانے کی بات کرکے یہ بتانا کہ آدمی ہمت کرکے اپنی جون رہے تو ہی آدمی ہے .... تو یہ سب اختیاری نہ تھا ادھر عسکری نے دھکیلا تھا ۔ اچھا دیکھئے ‘ کہ یہ جو میں نے اوپر کہانیوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے” آخری آدمی“ وہ کہانی ہے جس میں آدمی کے بندر بن جانے کو انسان کے اپنی برتر سطح وجود سے گرنے کے مترادف بتایاگیا ہے۔ افسانہ”زرد کتا“ میں نفس امارہ کا مارا ہوا آدمی زرد کتے کی پناہ میں پہنچ کر شرف انسانیت سے گر جاتا ہے۔ ”ہڈیوں کا ڈھانچ“ کا بھوک مارا آدمی جب نانبائی کی دکان سے گزرا اور پکتی ہنڈیا سے اٹھتی سوندھی سوندھی خوشبو اس کے نتھنوں میں گھسی تو اس سوال نے اسے بوکھلا دیا تھا کہ وہ کون تھا آدمی یا کتا ۔ اور افسانہ ”کایا کلپ“ کا شہزادہ آزاد بخت ڈراور خوف کی غلامی میں آکر مکھی بنتا رہا یہاں تک کہ پھر اپنی جون میں پلٹ نہ پایاتو کیا یہ نہیں بتایا گیا کہ خوف سے مکھی بننے والا اپنے برتر سطح وجود کو پھر حاصل نہ کر پایا تھا۔ دئلھیے ان کہانیوں میں جہاں انسان کو اعلی اخلاقی اور روحانی اقدار سے جوڑ کر دیکھنے کی سعی کی گئی ہے وہیں یہ بھی تو بتلا دیا گیا ہے کہ آدمی جب شرف انسانیت سے گرتا ہے تو آدمی نہیں رہتا کتا اور مکھی جیسا ہو کر ذلیل ‘رسوا اور بے حیثیت ہوجاتا ہے ۔صاحب یہ جو میں نے آگے بڑھنے کی بجائے انتظار کے ہاں اس کی اپنی کہانیوں میں جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں سے آدمی کو الگ اور اعلی کرکے دکھادیا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ یہیں مجھے انتظار کا ایک ایساتنقیدی بیان یاد آگیا ہے جس میں یہ دعوی موجود ہے کہ پرانے زمانے میں سب مخلوقات کی ایک ہی برادری تھی اور انتظار کو محبوب ہو جانے والے پرانے زمانے میں آدمی کے تصور میں یہ نہ تھا کہ وہ خود اشرف المخلوقات ہے ۔ خود ہی کہیے بھلا ایسے میں قاری کیا کرے ‘اِس بیان کو گرہ میں باندھے جس میں آدمی ‘جانور‘ کیڑے مکوڑے اور پکھی برابر ہو گئے تھے یا اوپر کی کہانیوں میں شرف انسانیت سے گرتے آدمی کو کتا اور مکھی بن جانے کی ذلت سے دوچار دیکھ کر متضاد اور متصادم معنی کشید کرے۔ خیر یہ مخمصہ تو قاری کا ہے۔ اپنے قاری کے مخمصے کی پرواہ کیے بغیر پرانے زمانے کی اس خوبی کا انکشاف انتظار نے اپنی تازہ کتاب کے اسی آغازیے میں کیا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ایسا لکھتے ہو انتظار کو یہ یاد ہی نہیں رہا کہ ابھی ابھی تو اس کے قلم نے جنم چکر کی بات لکھی تھی اسی جنم چکر کی جس میں اچھے یا برے کرموں کی کارن آدمی دوسرے جنم میں پکھی یا جنور بن جاتا ہے۔ گویا یہاں بھی گدھا ‘کتا‘گیدڑ بننا ایک لحاظ سے شرف انسانیت سے گرنا ٹھہرا ۔ اگر ایسا ہی ہے تو انتظار کا یوں گھما پھرا کر بات کرنا آخر کیا معنی رکھتا ہے ؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب آگے چل کر تلاش کریں گے کہ فی الحال مجھے انتظار کی کہانیوں کی ایک اور قسم کا تذکرہ کرنا ہے۔ جی‘ میری مراد ان کہانیوں سے ہے جن میںتہذیبی آدمی کے انہدام کا نوحہ کہا گیا ہے۔ آدمی کی اصل ذات ‘جو گم ہو گئی ہے ان کہانیوں کے مرکز میں آگئی ہے اور روح اور بدن کے سوالات یا تو حاشیے پر چلے گئے ہیں یا پھر ان کا ذکر ہی معدوم ہو گیا ہے۔ اس باب میں فوری طور پر جن کہانیوں کی طرف دھیان جاتا ہے ان میں ”شہر افسوس“ اور ”وہ جو دیوار چاٹ نہ سکے “ جیسی کہانیاں شامل ہیں۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ ”شہر افسوس“ میں کہیں تو فساد کی جگہ سے سلامت نکل آنے پر خدا کا شکر بجالایا گیا ہے تو کہیں ان زخموں کے مندمل ہونے کی امید دلائی گئی ہے جو ہجرت کے دورانیے میں لگے تھے پھر غرناطہ کا تذکرہ آتا ہے اور مسلم تہذیب صدیوں کا تسلسل پالیتی ہے۔ ”وہ جو دیوار چاٹ نہ سکے“ میں ایک دیوار ہے جسے دن بھر چاٹا جارہا ہے ۔ یاجوج ماجوج کی کہانی ذہن میں تازہ رہتی ہے ۔ جنہیں سد سکندری کو چاٹ ڈالنا تھا وہ دو منھواں سانپ بن کر ایک دوسرے کو بلکہ اپنے آپ کو چاٹتے اور ڈستے رہے ۔ تویوں اس افسانے کی جو تعبیر بنتی ہے وہ سب پر عیاں ہو جاتی ہے۔ کہیے صاحب کہ اب میں یہ نتیجہ آخر کیوں اخذ نہ کروں کہ اس مرحلے تک آتے آتے ہند مسلم تہذیب کی شناخت کا سوال انتظار کے لیے بہت اہم رہا۔ اس زمانے میں اس نے جو بھی کہانی لکھی اسے نئے زمانے سے جوڑ کر دیکھا اور دیکھنے کی طرف راغب بھی کیا۔ ہاں یہ بات قدرے بعد کی لگتی ہے کہ جب انتظارنے پرانے زمانوں کی گم شدہ کہانیوں کو تلاش کرکے نئے معنی دینے کا تردد کیے بغیر اپنی رنگ رس اچھالتی زبان میں لگ بھگ اسی پرانے ڈھب سے لکھ لینے کو کافی جانا ۔ ان بعد کی کہانیوں کو پڑھیں تو یوں لگتا ہے یہ اس انتظار کی کہانیاں ہیں ہی نہیں جس نے انسان کو بدنی اور مادی سطح سے بلند کر کے دکھا یا اور اسے ایک وسیع تہذیبی تناظر میں دیکھا تھا ۔ لیجئے جب یہ بڑے بڑے سوال نہ رہے تو آدمی‘ انسان بنے یا پکھی اور جانور انتظار کے لیے ایک سا ہوجاتاہے۔ ”نئی پرانی کہانیاں “ نامی کتاب کو پڑھ کر تو یوں لگتا ہے کہ جس طرح اس نے انسان کی معنویت کو معرض سوال میں ڈال دیا ہے خود کہانی بھی معنی سے الگ ہو گئی ہے۔ یہیں انتظار کا مشورہ بھی سن لیں :” اب زمانے کی بھی سنو ۔ میں نے سوچا کہ کیا ضروری ہے کہ ماضی میں سانس لیتی کہانی کو کھینچ کر اپنے زمانے میں لایا جائے ۔ کیوں نا ان کہانیوں کو انہیں کے زمانے میں جاکر ملا جائے۔ لیکن اگر کوئی کہانی ماضی سے نکل کر خود ہی ہمارے زمانے میں آجائے اور آج کے سیاق و سباق میں اپنی معنویت اجاگر کرے تو کیا مضائقہ ہے۔“(نئی پرانی کہانیاں/انتظار حسین)یہ جو انتظار نے دوسری بات کی ہے نئی معنویت والی تو میرا اس باب میں یہ خیال ہے کہ ایسی کسی پرانی کہانی کو از سر نو لکھنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے جولکھنے والے کے لیے تخلیق نو کا جواز لے کر نہ آئے ۔ خیر انتظار کا معاملہ دوسرا ہے اس نے ان کہانیوں کو حکمت کا گم شدہ لال جان کر اپنا مال قرار دے لیا ہے۔ اور طبع زاد کہانیوں کی مذمت کے بعد ایک کتاب میں انہیںجمع بھی کردیا ہے ۔ ایسے میں یہ جو آصف فرخی کے ”دنیا زاد“ کتاب ۔۸۱‘ میں ظفر اقبال نے ایک چبھتا ہوا سوال اٹھادیا وہ بھی دھیان میں رہنا چاہیے ۔ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ یہ انتظار کی کہانیاں کیسے ہو گئیں؟۔ یاد رہے اسی مضمون میں ظفر اقبال نے یہ بھی لکھ رکھا ہے:”انتظار حسین جیسے اتنے بڑے فنکار سے قاری کی توقعات بھی اتنی ہی بڑی وابستہ ہیں اور یہ قدرتی بات ہے کیوں کہ بظاہر تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ دیو مالا کی اتنی پھیلی ہوئی افسانہ نگاری میں سے انہوں نے قینچی ہی کا استعمال قدرے مہارت سے کیا ہے ‘ اور اپنے مطلب کی کہانیاں اس بنے بنائے میگا منظر نامے سے چھانٹ لی ہیں اور بس۔ اس سے آگے کیا ہے ‘ کچھ پتا بھی نہیں چلتا ‘ یعنی آگے سمندر بھی نہیں ہے اور اگر واقعتاً ایسا ہے تو یہ سیدھی سیدھی قاری کوبے وقوف بنانے والی بات ہوئی۔“(افسانے کی حقیقت ایک عام قاری کے نقطہ نظر سے/ ظفر اقبال/دنیازاد ۔ ۸۱)مجھے عین آغاز میں ہی دھڑکا لگ گیا تھا کہ جس انتظار کو میں مانتا ہوں اس پر ڈھنگ سے بات نہیں ہوپائے گی ۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ جی‘ مجھے ایک حیلہ اور کر لینے دیجئے اور کہنے دیجیے کہ اگر ظفر اقبال کا وہ بیان جو آصف فرخی نے دنیا زاد میں چھاپا ہے اگروہ انتظار کے مجموعی کام کے تناظر میں ہے‘ تو سراسر غلط ہے۔ اس بیان کی زد میں پہلے دور کی وہ کہانیاں جو سماجی حقیقت نگاری کے اسلوب میں لکھی گئیں قطعاً نہیں آتیں۔ بعد کی وہ کہانیاں جن میں ہمارے اجتماعی لاشعور کی بازیافت یا تہذیبی شناخت کے لیے داستانوں اور اساطیر سے مدد لی گئی ہے انہیں بھی اس فہرست سے خارج کرنا ہوگا۔ حتی کہ یہ بیان ”نئی پرانی کہانیاں“ کی ان ایک دو کہانیوں پر بھی صادق نہیں آتا جن کے متن سے عصری معنویت کا ظہور کچھ یوں ہوا ہے کہ نئے پرانے زمانے رل مل گئے ہیں تاہم یہ ماننا ہوگا کہ مو ¿ خر الذکر کہانیوں میں سے کسی تحریر کو طبع زاد کہانی کی سی شان عطا نہیں ہو سکی ہے ۔ انتظار حسین کے جس کام کو میں ظفر اقبال کے اعتراضات سے الگ کرکے دیکھ رہا ہوں اگراسے انتظار کے اپنے تنقیدی بیانات کو بھول کر‘ اور اردو فکشن کی روایت میں رکھ کر دیکھا جائے تو انتظار کا مقام بالکل جدا اوراس کا قد بہت اونچا دکھائی دینے لگتا ہے۔ یاد رہے جب میں ایسا کہہ رہا ہوتا ہوں تو میرے ذہن کے فلک پر ”آخری آدمی“”زرد کتا“ اور ”شہر افسوس “ جیسے شاہکار افسانے چمک رہے ہوتے ہیں اور کون نہیں جانتا کہ کسی کے فن کی قدر کا تعین اس کے اعلی کام سے کیا جاتا ہے ۔ میرا دعوی ہے کہ اردو افسانے کی پوری روایت میں کوئی بھی نہیں ہے جس کے پاس ان الگ سی چھب رکھنے والی کہانیوں کے مزاج اورمواد کا ایک بھی افسانہ ہو۔٭٭٭

منشایاد

پنجابی ناول.... ٹانواں ٹانواں تارا.....کے چند کردار
محمد حمید شاہد


”بات پاواں بتولی پاواں“ کی ذیل میں ”ٹانواں ٹانواں تارا“ کے مصنف محمدمنشایاد نے ایک عجب مغالطہٰ قاری کے ذہن میں ڈالنے کی سعی کی ہے پنجابی کا ےہ ناول پڑھتے ہوئے اسے ذہن سے بالکل نکال دینا از بس ضروری ہے۔ مناسب یہ ہو گاکہ آپ دیباچہ ناول کے بالکل آخر میں پڑھیں ورنہ پہلے صفحے کی گمراہی آخر تک سنبھلنے نہ دے گی۔ دیباچے میں منشایاد نے ناول کے آخری منظر نامے میں موجود اس بوڑھے کا ذکرکیاہے جو پختہ سڑک کے بیچوں ننگے پاﺅں چلا جا رہا تھا پھر جب اس نے چند بچوں کو ریت پر کھیلنے والے بچوں میں سے ایک وہ خود تھا جسے کتابوں اور خوابوں کی گھٹی پلائی گئی تھی، تب چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا اور کہانیوں نے اس کے اندر ککلی ڈالنا شروع کر دی تھی۔ریت پر لکیریںبنانے، خوابوں اور کتابوں گھٹی اور کہانیوں کی ککلی والی باتوں کی حد تک میں منشا ےاد سے متفق ہوں۔ ےقینا ےہ سچ ہوگا مگر ےہ بیان بالکل مغالطہٰ آمیز اور پانچ سو اٹہتر صفحوں والے ناول کے سارے متن سے متضاد ہے کہ وہ بچے جو اس وقت ریت پر لکیریں ڈال رہے تھے ان میں سے ایک ناول نگار خود تھا۔ اس لےے کہ جب وہ بوڑھا کہ جس کے حواس کی ڈور اس کی گرفت سے پھسل گئی تھی اور وہ کٹی پتنگ کی طرح تپتی سڑک کے فلک پر ننگے قدموں ڈول رہا تھا تب تک ناول نگار کے قدموں کے چھالے بھی صاف صاف دکھنے لگے تھے۔ ریت پر لکیریں ڈالنے کا وقت تو بہت پہلے بیت چکا تھا البتہ وہ ساری اذیت جو ریت پھانکتے اور کنکر چباتے بوڑھے کے چہرے پر جھلک دے رہی تھی اسے ناول نگار نے ”ٹانواں ٹانواں تارا“ کے ہر کردار کے مقدر کا حصہ بھی بنا ڈالا تھا۔ ایسے میں مجھے ڈاکٹر احسن فاروقی کا کہا ےاد آیا:”ناول زندگی کا آئینہ ضرور ہے مگر اس آئینے میں زندگی کا عکس گہری اور بدلی ہوئی حالت اختیار کر لیتا ہے“”ٹانواں ٹانواں تارا“کا مصنف بھی اسی آئینے میں کہیں تو پوری طرح ایک کردار میں خود جا بیٹھتا ہے اور کہیں لخت لخت اپنا وجود چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ ےہی وجہ ہے کہ میں ان بچوں سے بالکل مانوس نہیں ہو پاتا جو ریت پر بارہ کٹال کھیل رہے تھے تاہم اس بوڑھے کے بہت قریب ہو جاتا ہوں جس کے پاﺅں میں چھالے پڑ گئے تھے۔ڈاکٹر احسن فاروقی کی ہی ایک اور بات ےا دآرہی ہے:”ناول میں زندگی کا نقشہ ہونا چاہےے ‘جیتا جاگتا.... اور ےہ کہ ناول نگار کے لےے ضروری ہے کہ وہ اپنے تجربات ہی کا بیان ناول میں کرے....“اس تناظر میں جب میں ”ٹانواں ٹانواں تارا“ دیکھتا ہوں تو غیر ارادی طور پر ہر اس مقام کو نشان زدہ کرتا چلا جاتا ہوں جہاں خود ناول نگار نے اپنے تجربات بیان کےے ہیں۔ ناول پڑھ چکتا ہوں تو میں دو کیفیات سے گزرتا ہوں پہلی ےہ کہ میں نے صفحہ نمبر۷۳۴ سے ۲۷۴ کے مسلسل ۵۳ صفحات کو چھوڑ کر لگ بھگ ہر دوسرے صفحے کو نشان زد کر دیا تھا ۔ دوسرا احساس ےہ تھا کہ احسن فاروقی نے جو کہا تھا وہ مکمل طور پر سچ نہیں تھا۔ تاہم ےہ اپنی جگہ سچ ہے کہ منشا ےاد نے زندگی کے بھر پور اظہار کے لےے مضبوط کردار نگاری کا سہارا لیا ہے اور اپنے کرداروں کو اس طرح خوبصورتی سے تعمیر کیاہے کہ وہ ہمارے شعور میں جا بستے ہیں نہ صرف ہماری ہمدردیاں حاصل کر لیتے ہیں، بلکہ ہمارے دلوں کو بھی اپنی مٹھیوں میں لے لیتے ہیں۔ ےہی وجہ ہے کہ جب بھاباسو جیسے شیہنہ جوان کی بالکل آغاز ہی میں، محض بہتر صفحے گزرنے کے بعد، ٹانگیں ٹوٹ جاتی ہیں ےا پھر معصوم اور پاکیزہ حسن والی نجی صفحہ نمبر ۴۷۱ پرہی اپنی معصومیت اور عصمت سرور جیسے درندے کے ہاتھوں تار تار کروا بیٹھتی ہے تو ےقین جانےے بڑا دکھ ہوتا ہے۔ان کرداروں کے پیکر اتنی نفاست اور محبت سے تراشے گئے تھے کہ جب تک اپنی مکمل اور پاکیزہ صورت میں رہے اپنے ہونے کا بھر پور احساس دلاتے رہے مگر جونہی ناول نگار نے انہیں بے دردی سے داغدار کیا‘ سسکتی زندگی گزارتے نظر آئے۔ میں بھی ان کرداروں کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ہوں۔ انہی کے ساتھ ہنستا اور روتا رہا ہوں۔ مگر جب ےہ کردار ناول کے خالق کی بنائی ہوئی تقدیر کا شکار ہوئے تو میرے دل میں اس خواہش نے انگڑائی لی تھی کہ کاش ایسا نہ ہوتا۔ میں تصور کر سکتا ہوں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ناول کیا صورت اخیتار کرتا مگر منشا ےاد کے قلم کے جبر کا راستہ نہ ”کاش“ روکتا ہے اور نہ ”اگر“ ۔ ےوں وہ بڑی محبت سے تراشیدہ خوبصورت کرداروں کو بے دردی سے توڑ پھوڑ کر عین چلتے قصے کے وسط سے ایک اور کردار انتہائی مہارت سے تراشتاہے۔ ےہ نیا کردار خود بخود پہلے کردار کی کچھ ےوں جگہ لے لیتا ہے کہ وہ ساری ہمدردیاں بھی جو پہلے کرداروں سے وابستہ تھیں، سمیٹ لیتا ہے۔ ےہاں منشا ےاد کا فن عروج پر پہنچ جاتا ہے اور ےہیں سے ناول ایک نئی منزل کی سمت پھر سے رواں ہو جاتا ہے‘ ےوں کہ قصے کے نئے پن کا جادو پھر سے سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے۔ پے در پے وقوعے جنم لیتے ہیں، نئی نئی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں نئے اور اجنبی کردار ےکاےک سامنے آتے رہتے ہیں اور ےوں سامنے آتے ہیں کہ پوری قامت کے ساتھ آنکھوں میں سما جاتے ہیں۔ تاہم ےہ سارے کردار اس حد سے آگے نہیں بڑھتے جو مصنف نے ان کے لےے مقرر رکھ چھوڑی ہے۔ وہ مصنف کے لکھے کو نہ صرف برضاورغبت قبول کرتے ہیں بلکہ اس حیثیت سے قاری بھی انہیں بسر و چشم قبول کرتا چلا جاتا ہے۔صاحب ‘ایک کردار ایسا ہے کہ مصنف نے جس کے لےے پڑھنے والوں کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کرنے کو ایڑی چوٹی کا زور لگادیا ہے مگر قاری اسے اپنے دل میں مناسب جگہ نہیں دے پاتا حالانکہ وہ کردار بہت خوبصورت اور بہت دلآویز ہے۔ ےہ کردار نجی کی ناجائز اولاد اور سلیم کی محبوبہ نینا کا ہے، جو خالد کی لے پالک بلکہ اصل بیٹی کی طرح اس گھر میں رہتی ہے اور ےوں رہتی ہے کہ اس کی خوشبو سے سارا گھر مہکتا رہتا ہے۔ جس کے وجود کی مہک سے خالد کے گھر کے درو دیوار سرشار تھے خالد کے بیٹے نعیم کے دل پراس وجود کی مہک دستک نہ دے پائی تھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح قاری کے دل تک اس مہک کی دسترس نہیں ہو پاتی۔ ےہ کردار آخر تک پہنچتے پہنچتے اس قدر بے بس لاچار اور مظلوم ہو جاتا ہے کہ بدلے میں اسے پڑھنے والوں کی ڈھیروں ہمدردیاں ملنی چاہیےں، مصنف بھی ایسا ہی چاہتا ہے مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ قارئین کی ساری ہمدردیاں اس بوڑھے کی جھولی میں جا پڑتی ہیں جس کے ماتھے کا داغ اس خوبصورت لڑکی کو بنا دیا جاتا ہے، ہمدردیاں سمیٹنے والا بوڑھا کوئی اور نہیں اس ناول کا مرکزی کردار خالد ہے۔نکے پنڈ میں پلنے بڑھنے والا خالد، جس کا باپ حکیم بن گیا تھا۔ ایک وقت تھا کہ خالد کے بزرگ بارہ تیرہ ایکڑ اراضی کے مالک تھے۔ یہ اراضی وہ خود ہی کاشت کرتے تھے لیکن اس کے دادا نے اپنی زمین ملک خوشی محمد کو لکھ دی اور خود سائیں جی ہو گئے تھے کہ انہیں اپنی نسل کو ختم ہونے سے بچانا تھا۔ خالد کی دادی نے چرخہ کات کات کر گھر کا خرچ پورا کیا۔ دادا جی فوت ہو گئے اور خالد ایسے ہی حالات میں پڑھ لکھ کر شہر پہنچ گیا۔ وکیل بنا، محبت کی۔ جس سے محبت کی اس سے شادی نہ کر سکا۔ جس سے شادی کی وہ زندگی کا حصہ نہ بن سکی۔ جو اس کے لےے اجڑ گئی اسے دیکھا تو تڑپ اٹھا کہ اس کو تو زندگی کا ساتھی ہونا چاہےے تھا۔ کفارہ ےوں ادا کیا کہ اس کی ناجائز بیٹی کو اپنے گھر میں بیٹی بنا کر لا بسایا مگر اس کے دشمن نے اسی کو اس کے لےے گالی بنا دیا۔ وہ اپنے حواس کھو بیٹھا۔ اس کے لےے سب کچھ اندھیر ہو گیاتھا اور وہ ننگے پاﺅں ریت کی ڈھیری پر جا بیٹھاتھا۔قاری جو خالد کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوتا ہے ےہاں پہنچ کر اس کا دل بھی بیٹھ جاتا ہے۔ ایسے میں کئی خواہشیں جنم لیتی ہیں .... کاش مصنف اتنا بے درد نہ ہوتا، اسے عاشی سے ہی ملوا دیتا کہ جس کے بدن کے مہک ناول کے صفحوں سے بھی اٹھ رہی ہے۔ ایسا ممکن نہ تھاتو کاش ولی محمد سنیارے کی بیٹی نجمہ ہی اس کا مقد ربن جاتی کہ جو خود سونے کی ڈلی تھی۔ اور نہیں تو زینت کم از کم بالکل ملوانی نہ ہوتی، ےوں ہوتی جیسے شہناز تھی‘ قہقہے لگانے والی ، جملے پھینکنے والی، دلگیری کرنے والی‘ الجھنوں کو سلجھانے والی۔ مگر ناول جوں جوں آگے بڑھتا ہے ظالم دکھ کے پنجوںکی گرفت دل پر مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایسے میں فرحانہ بھی بہت پیچھے رہ جاتی ہے اور میں سوچتا ہوں، فرحانہ کو اتنا پیچھے تو نہیں رہنا چاہےے تھا۔ مگر میرے چاہنے اور خواہش کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے، کہانی کو تو اسی نہج پر چلنا تھا جس پر ناول نگار چلانا چاہتا تھا۔ سو ناول جب اپنے اختتام کو پہنچتا ہے تو میں اپنے سارے ”اگر مگر“ بھول جاتا ہوں اور تسلیم کر لیتا ہوں کہ منشا ےاد جیسا فنکار کہانی کو قاری کی مرضی سے نہیں بلکہ خود اپنی مرضی سے جیسے چاہتا ہے ‘چلاتا ہے اور ےہ بھی اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ناول کے ایسے کردار پنجاب سے اور پنجابی زبان میں ہی تخلیق کےے جاسکتے تھے اور انہیں کوئی اور نہیں صرف منشا ےاد ہی تراش سکتا تھا۔٭٭٭

خالدہ حسین

خالدہ حسین کا ناول “ کاغذی گھاٹ ” اور پوری عورت
محمد حمید شاہد


خالدہ حسین کا ناول ”کاغذی گھاٹ“پڑھتے ہوئے مجھے رہ رہ کر وہ تقریب یاد آرہی تھی جو ایک معروف مصور کی نجی گیلری میں ہو ئی تھی۔جب میں اس تقریب میں پہنچا تھا تو باہر کی کسی یونیورسٹی میں خالدہ کی افسانہ نگاری پر مقالہ لکھنے والی خاتون‘ عورت کے پورے وجود کی بات کررہی تھی ایساوجود جس کے کندھوں پر سر بھی تھا ۔ یہ تقریب ایک ویمن ایکٹی وسٹ ادیبہ نے منعقد کرائی تھی اور اس بات کا خاص اہتمام کیا تھا کہ اس میں ادیب کم اور قدرے رکھ رکھاﺅوالی سوسائٹی کے باذوق اور ادب سے محبت سے کہیں زیادہ سرپرستی کا رشتہ ظاہرکرنے والے مردوزن کثرت سے شرکت فرما ئیں۔ مجھے تو وہاں از راہ عنایت بلا لیا گیا تھا ۔ مگر میرے ساتھ سانحہ یہ ہوا کہ میں خالدہ کے افسانوں میں پوری طرح موجود مکمل عورت کے اس بھرپور تذکرے کے ابتدائی جملے ہی سن پایا تھا کہ میری توجہ اُچٹ گئی۔ میں مسلسل دیواروں پر آویزاں ان فن پاروں کو دیکھ رہا تھا جن میں عورت کا بدن اپنی دلکش گولائیوں ‘ڈھلوانوں ‘اُبھاروںاور کوسوں کے ساتھ موجود تھا مگر کسی بھی تصویر میں عورت کے بدن پر لباس اور کندھوں پر سر نہیں تھا ۔صاحب‘ آپ مجھ پر پھبتی کس سکتے ہیں کہ ہو نہ ہو یہ ننگا پن میرے اندر ہے تبھی تو ان شاہ پاروں میں مجھے عورت ننگی نظر آئی ورنہ مصور نے تو اپنے فن کا کمال دکھایا تھا صرف چند لکیروں میں عورت کا پورا حسن دکھا دیا....پھر لکیریں ننگی کہاں ہوتی ہیں .... اور ایک سر ہی تو نہیں تھا۔ ایک سر ‘ لگ بھگ ہر تصویر میں اضافی ہوگیا تھا ‘ جہاں سر ہونا چاہیے تھا وہاں سے کینوس ختم ہوگیا تھا۔خالدہ حسین کا ناول ”کاغذی گھاٹ“ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے کینوس ختم ہو گیا تھا‘ جہاں کہیں سے فکری غذا پانے والی ترقی پسندی ختم ہو جاتی ہے‘ جہاں لایعنی جدیدیت بھی ختم ہو جاتی ہے ۔ممکن ہے تصویر والی عورت کی بات ادھوری رہ گئی ہو۔ ممکن کیا‘ ایسا ہو چکا ہے‘ جہاں میری بات میں عورت کے وجود سے وابستہ لذت کو داخل ہونا چاہیے تھا وہاں کوسوں کمانوں سے میں برگشتہ ہو گیا ہوں ....اتنا برگشتہ کہ اپنی اس حرکت پر میں تو باقاعدہ جھینپنے لگا ہوں۔میرے اندر کئی بار پڑھے ہوئے یہ جملے گونج رہے ہیں کہ کرہ ارض پر سب سے حسین عورت کا بدن ہوتا ہے ۔ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ رنگ بولتے ہیں‘رنگ گونجتے ہیں ‘رنگ اچھلتے ہیں ‘ رنگ اچھالتے ہیں ۔رنگ ہماری تصویروں کو جاذب نظر بناتے ہیں اور ہماری تحریروں میں لذت بھر دیتے ہیں ۔ میںرنگ رس اچھالتے جملوں کی گونج سنتا ہوں اور ادبدا کر خالدہ حسین کے ”کاغذی گھاٹ “کی طرف متوجہ ہوجاتا ہوں جہاں عورت ہے مگر لذت نہیں ہے اس کا خوب صورت بدن ہے مگر اس کا سر بھی سلامت ہے ۔ لیکن ٹھہریے صاحب شاید میں اپنی بات درست طور پر شروع نہیں کر پایا اور مجھے خدشہ ہونے لگا ہے کہ اب تک آپ یہ گمان باندھ بیٹھے ہوں گے کہ عورتوں کے بارے میں یہ ایک عورت کا لکھا ہوا ناول ہے ۔مجھے عین آغاز میں بتا دینا چاہیئے کہ یہ خیال ہی گمراہ کن ہے ۔جی ہاں میں ایسا کہہ رہاہوں .... اس کے باوجود کہ اس میں کئی عورتیں ہیں ۔ عورتیں کم اور عورت گھاٹ اترنے والی لڑکیاں زیادہ ۔اس میں مونا ہے جس کے وسیلے سے ہم اس کہانی کے باطن میں جھانک سکتے ہیں۔ کہانیاں لکھنے والی ‘بہت سوچنے والی اور بہت ہی زیادہ کڑھنے والی مونا ‘جسے آخر کار ایک تکلیف دہ مستقبل کے سامنے جا کھڑا ہونا ہے.... ایسے مستقبل کے سامنے ‘جہاں اس کے تخلیقی وجود کو سمجھنے والا کوئی حسن حوصلہ دینے نہیں آئے گا۔ اس میں عائشہ ہے‘ گول گورے چہرے‘ سنہری آنکھوں اور سنہری بالوں والی۔ جو ناول کے آغاز میںکَسی ہوئی چٹیا میں پراندہ ڈالے داخل ہوتی ہے ‘ بھرے بھرے سرخ ہونٹوں سے کتارا کھاتے ہوئے ۔ اور پھر انتہائی کوشش سے وہ مقام حاصل کرلیتی ہے جس کی کم وبیش ہر لڑکی کو تمنا ہوتی ہے ۔ پھولوں ایسی تروتازہ لڑکی کے اس دل خوش کن انجام پر ناول نہیں رکتا اور حسیب کا وہ تکلیف دہ روپ دکھاتا جس سے مرد ذات سے نفرت پڑھنے والوں پر لازم ٹھہرتی ہے ۔اس میں آپا نور ہے ۔یہ بھی گوری چٹی ہے اس کے بال بھی سنہری ہیں ۔دھان پان سی لڑکی ‘ نہر میں مچھلی کی طرح تیرنے والی....بڑے مزے سے کپڑوں سمیت نہر پار کرنے والی۔ آپا نور جو اپنے بے پناہ حسن کے وجہ سے بے شمار حماقتیں کرتی ہے ۔اس ناول میں روشنی بن کرطلوع ہوتی ہے‘ یوں کہ متن جگمگانے لگتا ہے مگر جلد ہی پہلے سے کنبہ رکھنے والے مختار کے ساتھ شٹل کاک برقعے میں رخصت ہوجاتی ہے ۔رخصت کہاں ہوتی ہے ‘ناول کے آخر میں وہ انجام دکھانے آتی ہے جس سے ناول نگار نے اُسے دوچار کرنا تھا۔ اب کی بار خوب صورت آپا نور ‘ خوب صورت نہیں رہتی ‘اُس کا چہرہ سانولا اور مرجھایا ہوا ہے‘ کھچڑی بال برقعے سے باہر جھانک رہے ہیں۔دانت چھدرے ہوگئے ہیں اور پیٹ پھولا ہوا ہے۔ لیجئے ایک مرتبہ پھر مرد پر تھوکنے کا موقع نکل آیا ہے۔اس ناول میں کراچی سے پنجاب یونیورسٹی کے طلباءکے لئے چوڑیوں کا تحفہ لانے والی فربہ سی لڑکی شاہجہان بھی ہے یہ بھی گوری چٹی ہے ‘ آنکھوں میں بھر بھر کاجل ‘شعلہ بیان مقرر‘ بولتے بولتے جس کی ناک پر پسینے کے قطرے جھلملانے لگے تھے ‘جس نے بے حد چست قمیض پہن رکھی تھی‘ ایسی کہ اس میں سے اس کا صحت مند جسم باہر چھلکا پڑتا تھا اور جس کی قمیض میں عین سینے پر ایک جانب کھونچ لگی ہوئی تھی ۔مردانہ وار آگے بڑھنے اور مردانہ نام رکھنے والی بھرے جسم والی شاہجہان بعد میں سندھ کے جتوئی خاندان میں بیاہ کرلیتی ہے اور ناول میں آخری بار یوں آتی ہے کہ اس کی قمیض پر کو ئی کھونچ نہیں ہوتی ۔اس نے بہت کچھ پا لیا ہوتا ہے مگراس کے باوجود باتوں ہی باتوں میں اس کے سینے کے اندر سے ایسا کھونچ ڈھونڈ نکالتی ہے جس نے اسے دبلا اور دکھی کر رکھا ہوتا ہے ۔اس ناول میں خوب صورت افروز بھی ہے جس کے طفیل پورے متن میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔ سائنس پڑھنے اور عالمی ادب گھول کر پی جانے والی افروز ۔یہ بہت کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے ساحر اور اخترالایمان کی نظمیں پڑھنے والی ‘ انقلابی اور سربلند لڑکی۔ آخر میں جمال کے ساتھ بھاگ کر اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرتی ہے ۔اور مقدور بھر دکھ دیتی اوردکھ پاتی ہے۔ اب تک آپ اندازہ فرما ہی چکے ہوں گے کہ خالدہ حسین کے ناول میں لڑکیاں اور عورتیں آتی ہے اور انجام کار اپنے حصے کا دُکھ سمیٹ لیتی ہیں ۔ اتنی ساری لڑکیوں اور عورتوں کے باوجود ‘ مجھے پھر کہہ لینے دیجئے کہ یہ ناول عورتوں کے بارے میں نہیں ہے ۔یہ ہماری تاریخ کا نوحہ ہے ۔ یہ ہماری تہذی ورثے سے جڑنے اور اس کے اندر موجود جبر کے کھانچوں کی کہانی ہے ۔ یہ روایت کا قصہ ہے اور ناروا روایات پر حرف نفرین بھی ۔اس میں ان طبقوں کے مکروہ چہروں پر تھوکا گیا ہے جنہوں نے ہمیں تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے اور اس اندرونی سامراج کی کلف لگی وردی بھی اتاری گئی ہے جو ہر بار اپنے ہی عوام کو اپنے بوٹوں تلے کچلتا ہے ۔ اس میں موجودہ نظام کی خرابیاں اور ان کے محرکات بتائے گئے ہیں اور یہ بھی صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ ہم اوروں کے اشاروں پر ناچ کر اپنا آپ اجاڑ رہے ہیں ۔آخر میں تو ناول صرف بتا تا ہے ‘نفرین بھیجتا ہے ‘ کوستا ہے ‘جھلاتا ہے ۔ اور تازیانے رسید کرتا ہے ۔ خالدہ حسین کی ایک پہچان اس کا اسلوب بھی ہے ۔ ساٹھ کی دہائی کے جدت پسندوں میں خالدہ حسین ہی وہ واحد افسانہ نگار ہے جو باقاعدگی سے اور تخلیقی جواز کے ساتھ افسانے لکھ رہی ہے۔وہ اپنے ہی تجربے سے منحرف ہوکر کہانی کہانی پکارنے والوں میں نہیں اور افسانے کی حد تک اپنے اسلوب سے وابستگی پر مطمئن اور مسرور بھی ہے ۔ جو فیشن زدگی سے بچ کر اپنے تخلیقی تجربے کے ساتھ جڑا رہا ہو اس کے ہاں ایسے اطمینان کا آجانا یقینی ہو جایا کرتا ہے ۔ خالدہ حسین نے اپنے افسانوں میں خود کلامی کے وسیلے سے خوب کام لیا ہے ۔ یہ خود کلامی کہیں تو سٹریم آف کانشی ایس نیس اور کہیں مونو لاگ کی صورت میںظہور کرتی رہی ہے۔ وہ جانے پہچانے منظرنامے میں عجب کا قرینہ رکھ کر ایک دھند سے تجسس ابھارتی ہے اور اسی تجسس سے کئی سوال اٹھاتی ہے ۔ اس کے ہاں تجرید اور علامت کا نظام اسی دھند کی دین ہے ۔ تاہم ‘ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے افسانوں میں وہ متن کو آگے بڑھاتے ہوئے خود آگے نہیں لپکتی جہاں ہوتی ہیں وہیں رہتی ہے ‘ لہذا متن اس کا اپناذاتی جذبہ بن کر جذباتیت کا شکار نہیں ہوتا۔ یہ ایسا طرز عمل ہے جس سے پیچیدہ سے پیچیدہ بات وہ سہو لت اور سفاکی سے کہہ جاتی ہیں۔مگر یہ تو افسانے کی بات ہے سایہ ‘ شہر پناہ‘ سواری اور ہزار پایہ کی بات۔ پرندہ‘ پہچان اور مصروف عورت کی بات ۔ زیر نظرناول میں ایسا نہیں ہوتا ہے ۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا ضروری بھی نہیں ہے کہ افسانے میں ایک خاص اسلوب سے وابستہ رہنے والے اسی اسلوب میں ناول کی بھی لکھیں ۔ مجھے آپ کی بات سے دو سو فی صد اتفاق ہے ۔ مگر کاغذی گھاٹ کو پڑھتے ہوئے آغاز میں کیا ایسا نہیں لگنے لگتا جیسے تخلیق کار کو اپنے اسلوب سے الگ ہوتے ہوئے بہت جتن کرنے پڑ رہے ہیں ۔ممکن ہے میں نے ہی ایسا محسوس کیا ہو اور فی الاصل ایسا نہ ہو مگر میرے اس احساس کی بنیاد کہانی میں در آنے والی اور اکتا دینے والی سست روی ہے یہاں تک کہ کئی صفحے پڑھنے کے بعد مجھے یہ وسوسہ ہولائے دیتا تھا کہ کہانی آگے نہیں بڑھے گی یہی گھمن گھیریاں کھاتی رہے گی ۔ کہانی میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین اور زرخیز کردار آتا تھااور وہیں ادھر ادھر ہوجاتا تھا ‘ اسی حصے میں شہر اور سرخ اینٹوں والی گلیاں آتی تھیں‘ اونچے چوبارے آتے تھے‘ لکڑی کے چھجوں والے‘ تاریک صحنچیاں آتی تھیں ۔ کھڑکیاں آتی تھیں جن پر باریک رنگین تیلیوں کی چقیں پڑی ہوئی تھیں کتنا بھر پور منظر ہے مگر کہانی وہیں رکی ہوئی تھی اور مڑ مڑ کر پیچھے دیکھ رہی تھی۔میں صاف دیکھ سکتا تھا کہ وہاں چھوٹے چھوٹے کمرے تھے‘ جو اس لیے کشادہ نظر آتے تھے کہ ان میں سامان ٹھسا ہوا نہیں تھااور لوہے کے پینٹ کئے ہوئے صندوق تھے‘ اوپر تلے پڑے ہوئے ۔ وہیں ایک کونے میں چھوٹی بڑی دیگچیوں کے مینار تھے۔دیوار پر کھونٹیوں کی لمبی قطار تھی‘ بڑے ابا کا کچہری کا کوٹ‘ دھوبی کی دھلی ہوئی اور کلف لگی شلوار‘ بڑی اماں کا شٹل کاک برقعہ اور بہت کچھ ‘ جو ایک تہذیب کا نقشہ ابھارتا تھااور ایسا ماحول بناتا تھا کہ آنکھوں کے سامنے ایک جہان آباد کر دیتا تھا مگر کہانی تھی کہ ادھر ہی گھومے جاتی تھی اور اس رفتار سے آگے نہیں بڑھتی تھی جس کی میں توقع کئے بیٹھا تھا ۔ پہلے کسی کردار کا وجود اسارا جاتا اور پھر اسے ماحول میں لابسایا جاتا وہ خود ماحول کے اندر کہانی کے بہاﺅ میں اپنی شباہت کا سلسلہ مکمل نہیں کرتا تھا کرداروں کے اوصاف خود بخود نہیں کھل رہے تھا انہیں ناول نگار کو کھولنا پڑ رہا تھا بلاشبہ جزیات میں تحریر کی یہ اکائیاں بہت خوب صورت اور دلکش تھیں مگر اس کے سبب وہ دھندلکا پیدا نہیں ہورہا تھا جوخالدہ کے ہاں افسانوں میں آکراَسرار بھردیا کرتا تھا ایسا اسرار کہ جو اپنے پاس ٹھہرالیتا تھا۔تاہم وہ خدشہ جس نے عین آغاز میں مجھے پچھاڑ دیا تھا بہت جلد ‘ یہی کوئی دوسرے باب کے بعد ‘مکمل طور پر رفع ہو جاتا ہے اور کہانی بہت سے کرداروں سے ملاقات کے بعد آگے بڑھنا شروع کردیتی ہے۔ ناول کا یہی وہ حصہ ہے جہاں صاف صاف محسوس ہونے لگتا ہے کہ خالدہ حسین نے اپنے اسلوب کی بجائے کہانی کے بیانیے سے وفاداری کا فیصلہ کر لیا ہے اور اسے فطری بہاﺅ پر ڈالنے کے لیے سارے رخنے اٹھا لئے ہیں ۔ اس کا نتیجہ بہت خوشگوار نکلتا ہے اورکہانی قدم قدم پر دکھ‘ درد کی فصل بو نے لگتی ہے ....وہ دکھ درد جو اندر ہی اندر بہتا ہے اور محسوسات کی سطح کی سطح پر بہت کچھ سجھانے لگتا ہے۔یہاں پہنچ کربیانیے کا ایک آہنگ قائم ہو جاتا ہے ‘ جس کے سبب متن اور واقعات ایک ہی اسراع سے آگے بڑھتے ہیں ۔ بیانیے کے اس خارجی بہاﺅ کی وجہ سے ناول کے ِاس حصے میں خودبخود ایک باطنی نظام قائم ہو جاتا ہے اور وہ سارا کچھ جو ناول نگار نے لکھتے ہوئے محسوس کیا یا جس تخلیقی تجربے کے تحریک پر یہ متن مکمل ہو رہا تھا‘ ہمارے دل پر بھی اترنے لگتا ہے۔ کہانی کے اس وسطی حصے میں بھی monologue ہے اور کہیں کہیں stream of consciousness کی تیکنیک کو برتا گیا ہے تاہم عمومی طور پر بات مکالموں میں کہی گئی ہے تاہم یہ سارے حربے متن کا تحرک مجروح نہیں کرتے ۔ کہیں بھی محسوس نہیں ہوتا کہ ٹھہر ٹھہر کر ہمیں کچھ بتانے اور سمجھانے کی کو شش کی جارہی ہے حتی کہ ناول اپنے آخری حصے میں داخل ہو جاتا ہے.... وہاں‘ جہاں اس کے کرداروں کو ان کے مقدرکے گھاٹ اُتارا جانا ہے۔ اُس مقدرکے گھاٹ‘ جو ناول نگار کے دست قدرت میں ہے ۔کہانی کے تمام خوب صورت نسوانی کردار لگ بھگ ایک سے انجام سے دوچار ہونے کے باوصف کَھلتے نہیں ایک شدید احساس کے بالمقابل لا کھڑا کرتے ہیں یہ ایسا احساس ہے جو جگر چیر ڈالتا ہے ۔ سچ پوچھیں تو وہ ناول جو کرداروں سے پیوستہ بیانےے کے ذریعے لکھا جارہا تھا یہاں پہنچ کرمکمل ہوجاتا ہے ۔ مگر وہ موضوع‘ جسے خالدہ نے اپنے خاص تہذیبی رچاﺅ‘ تاریخی شعور‘ ثقافتی پس منظر اوراپنے ادراک سے متشکل ہونے والے پیش منظر سے جڑ کراُبھارنا تھا‘ جو بوجوہ کرداروں سے کٹ کرکہانی کے بہاﺅ سے باہر رہ گیا تھا اسے پوری طرح متوجہ کر چکا تھا۔ خالدہ نے ناول کے آخر میں اسے بیان کرنے کے لیے ڈرامے کی اس تیکنیک کا سہارا لیا ہے جس میں تنہا کلامی کے ذریعے ان باتوں کو کہلوایا جاتا ہے جو دوسرے کرداروں سے تو نہیں کہی جاسکتیں مگر جن کی تظہیر ڈرامہ دیکھنے والوں پر ضروری ہوتی ہے ۔ اس تیکنیک کے ذریعے‘ جسے غالبا سولی لوکی”soliloquy“ کہتے ہیں‘ ناول کی مرکزی کردار مونا ہمارے اندر مردہ ہو چکے آدمی کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگاتی ہے۔ ہمارے بے حیا وجودوں پر کوڑے برساتی ہے ۔ یہیں ہمیں وہ بتاتی ہے کہ ہم خوب صورت قوم ہوتے ہوئے بھی کتنے قریہہ ہیں۔یہاں راوی انفرادی اور اجتماعی سطح پر پسپائی ہی پسپائی لکھتا ہے.... مونا بتاتی ہے کہ جب کسی قوم کی فتح بس اسی پر منحصر ہو کہ وہ نوے ہزار شکست خوردہ سپاہ واپس لے آئے اور جو چھ ستمبر تو منائے مگر اکیس دسمبر منانا بھول جائے۔ اُن جہازوں کو تو نمائش میں رکھے جنہوں نے ایک ہی پھیرے میں دشمن کے پانچ پانچ جہازوں کو مار گرایا تھا اور ان جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کو اپنی ڈھٹائی کی بکل میں چھپالے جو ہتھیار ڈالنے والوں کے بھائی بنداپنوں کو غیروں کی طرح کچل کر اُدھر سے بھر بھر کر لائے تھے تو ایسی قوم کا مقدر پسپائی ہی پسپائی ہوتا ہے۔ اُف خدایا! ناول میں اتنا بے پناہ کڑوا سچ کس قدر ٹھونس ٹھونس کر بھر دیا گیا ہے یہ ایسا سچ ہے جو فکشن کا بیانیہ سیدھے سبھاﺅ اپنے اندرسمو لینے کی سکت نہیں رکھتاتاہم خالدہ نے اسے ناول کے بیانیے کاحصہ بنادیا ہے۔ کہانی کی اس ٹریٹمنٹ سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر بیان ہونے والا سچ ہمیں پچھاڑنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے ۔ میں خود کو خالدہ حسین کی دانش اور فکر سے یہاں پوری طرح ہم آہنگ پاتا ہوں ‘ اتنا ہم آہنگ کہ اس کے جذبے اور دُکھ میرے اپنے سینے کی د ھڑکن بن جاتے ہیں ۔اور آخر میں مجھے کہہ لینے دیجئے کہ وہ جو فکشن کو سماج کی تخلیقی دستاویز نہیں مانتے جو ادبی متون سے عصریت ‘دانش اور فکرکو منہا کرکے اسے سر کٹی برہنہ عورت والے فن پارے جیسا لذیذبنانے کو ہی تخلیقی سرگرمی سمجھتے ہیں ان کے لیے اس ناول میں بہت کچھ ہے اتنا کچھ کہ مردہ متون کی شرح پیدائش میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے ۔

Saturday, February 14, 2009

مظہرالاسلام


مظہرالاسلام کا ناول..... محبت: مردہ پھولوں کی سمفنی

محمد حمید شاہد


”موت کی طرف کھلی کھڑکی“ اس خوفزدہ شخص کی کہانی ہے جس کے من میں اس خیال کا ناگ پھن پھیلا کر بیٹھ گیا تھا کہ وہ قتل کر دیا جائے گا.... ےہ وہ کہانی ہے جو مجھے اس قدر پسند آئی تھی کہ موت سے خوفزدہ اس کردار کی بے چارگی دکھ بن کر میرے اندر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی تھی۔”گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی“،” بارش کی باتوں میں بھیگتیلڑکی“ ،” گڑیا کی آنکھ سے شہر کو دیکھو“ اور” خط میں پوسٹ کی ہوئی دوپہر“ مظہر الاسلام کی ایسی ہی کہانیوں کے مجموعے ہیں۔ ان کہانیوں میں موت، اِنتظار، دکھ اور جدائی جیسے موضوعات اپنی ترکیب کے نئے پن کی مہک دیتے جملوں میں ےوں جگہ پاتے ہیں کہ ہر جملہ لطف دے جاتا ہے۔ ان افسانوی جملوں کی ندرت میں اتنی چمک ہوتی ہے کہ کہانی میں کسی بڑی اکائی کی تلاش کی خواہش کا ساےہ بس ایک لمحے کو لہرا کر ذہن کے کونوں کھدروں میں کہیں گم ہو جاتا ہے۔ےوں نہیں ہے کہ مظہر کی کہانیوں میں کوئی واقعہ، خیال ےا احساس ایک مکمل دائرہ نہیں بناتا.... بہت سی کہانیوں میں ےہ دائرہ بنتا بھی ہے اور کہیں کہیں تو وہ پرکار کا نوکیلا سرا سختی سے جما کر ےوں گہری لکیر کھینچتا ہے کہ ےہی لکیر کسی نوخیز لڑکی کی آنکھوں میں آنسوﺅں سے پھیلنے والے کاجل کی طرح بھلی لگتی ہے۔ تاہم کہانی کے انجام کو آغاز سے جوڑ کر گھومتا دائرہ بنانا مظہر کا کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا ہے کہ اسے تو جملہ لکھنا ہوتا ہے، شاندار افسانوی جملہ.... چھوئی موئی کی طرح خود میں سمٹا ہوا اور بند کنواری کلی کی طرح نوخیز.... جب تک مظہر افسانے تسلسل اور توانائی سے لکھتا رہا ایسے ہی جملوں میں اس کی پوری شخصیت خوشبو کی طرح بس جاتی تھی۔”موت کی طرف کھلی کھڑکی“ مظہر کے تیسرے مجموعے کی پہلی کہانی ہے۔ اس خوبصورت کہانی میں موت کی طرف کھلتی کھڑکی سے باہر جھانکتے شخص کے عقب میں کرسی پر بیٹھا ایک اور کردار بھی ہے جس کی طرف قاری کا فوری دھیان نہیں جاتا۔ ےہ کردار موت سے خوفزدہ شخص کے خوف کی راکھ کرید رہا ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی شخصیت کے چہرے سے پردہ بھی کھسکا رہا ہوتا ہے۔جب اسرار بھری شخصیت کو اپنے تفتیشی جملوں سے ظاہر کرنے والا کردار موت سے خوفزدہ شخص سے استفسار کرتا ہے.... آخر اسے کیوں قتل کر دیا جائے گا؟.... تو موت کی کھڑکی سے باہر جھانکنے والے کا ےہ جواب ہوتا ہے۔”وجوہات تو کئی ہو سکتی ہیں۔ شہر کے بہت سے لوگوں کو میرا وجود ناگوار گزرتا ہے۔ بعض حلقوں میں ، میں انا پرست اور خوددار بھی مشہور ہوں۔ کچھ احباب ابھی تک مجھ سے سمجھوتہ نہیں کر پائے۔ بہت سے ایسے ہیں جو میری تنقید سننا پسند نہیں کرتے۔ ایک دوایسے بھی ہیں جن سے میری وفاداری ان کے دوستوں اور دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ بہت سے لوگوں کو میری باتیں کڑوی لگتی ہیں۔ کچھ لوگوں کو شکوہ ہے کہ میں انہیں ملنے نہیں جاتا.... اور پھر ”وہ“ بھی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، وجوہات کا کیا ہے؟....“کرید کرید کر پوچھنے والے شخص کے سوال کرنے کا ڈھنگ، سگریٹ سلگانے اور ےکے بعد دیگرے کش لینے کی عادت، مخصوص مسکراہٹ، جیب سے رومال نکال کر پیشانی سے پسینہ پونچھنا اور آخر کار جیب سے پستول نکال کر میز پر رکھنے اور قتل کا ارادہ ملتوی کر کے باہر نکل جانے کے انداز سے میں نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ جو کہا جاتا ہے کہ کہانی کہنے والا اپنی کہانی کے کسی نہ کسی کردار کے پوست میں چھپ کر بیٹھ جاتا ہے تو ےہی وہ کردار ہے جس میں خود افسانہ نگار چھپا بیٹھا ہے۔مگر ایک مدت گزرنے کے بعد ابھی ابھی کہ جب میں مظہر کا پہلا ناول پڑھ کر اٹھا ہوں مجھے اپنے تب کے خیال کی مجہولیت کی بابت سوچ کر شدید ہنسی کا دورہ پڑا ہے۔ اتنا شدید دورہ کہ میری آنکھیں اس کہانی کی لڑکی کے ان شفاف آنسوﺅں سے بھر گئی ہیں جو موت کی طرف کھلی کھڑکی سے باہر جھانکنے والے کے لےے اس کی آنکھوں سے اُمنڈ پڑے تھے۔مظہرالاسلام کی کہانیوں نے اردو ادب اور میرے دل میں ایک جیسا مقام بنایا ہے۔ تاہم ساتھ ہی ساتھ مجھے ےہ خدشہ بھی پریشان کرتا رہا ہے کہ اپنے تخلیقی تجربے کے لےے اسلوب کا جو احاطہ مظہر نے چنا ہے اس پر وہ خود تو بڑی سہولت اور مہارت کے ساتھ ہوادار، روشن اور خوشنما محل بنا سکتا ہے ‘کسی بھی دوسرے شخص کے لےے اس اسلوب کے احاطے میں پوری طرح سمانے اور مکمل سانسوں کے ساتھ ٹھہرنے کی انتہائی کم گنجائش ہے۔ بہت پہلے جب ےہ سنا تھا کہ مظہر ناول لکھ رہا ہے اور ےہ کہ اس کا عنوان ”تابوت“ ہو گا تو تب ہی سے مجھے اس ناول کا انتظار سا ہو چلا تھا۔ پھر خبر آئی کہ ناول کا نام بدل کر ”محبت“ رکھ دیا گیا ہے۔ بعد کا عرصہ مظہر کی تخلیقی جلا وطنی کا عرصہ ہے۔ اس دوران اس کی روشن اور اجلی تصویر پر بہت سی دھول تہہ در تہہ جمتی چلی گئی۔ اس سارے عرصے میں مجھے اس کے ناول کا مزید شدت سے انتظار رہنے لگا کہ نہ جانے مجھے کیوں ےقین سا ہو چلا تھا کہ جونہی اس کا ناول منظر عام پر آئے گا ساری دھول آپ ہی آپ جھڑ جائے گی۔وہ ناول جسے ”محبت“ ےا ”تابوت“ کے نام سے آنا تھا، ایک چونکا دینے والے نام اور ایک بڑے دعوے کی صورت مکمل طباعتی جمال کے ساتھ سامنے آیا تو میں نے اپنے اندر اس کے مطالعے کے اشتیاق کو فزوں تر پایا۔ ”محبت، مردہ پھولوں کی سمفنی“ کہ جسے مصنف نے بقلم خود ”دنیا سے ختم ہوتی ہوئی محبت کو بچانے کے لےے لکھا گیا ناول“ قرار دیا ہے، ابھی ابھی پڑھ کر فارغ ہوا ہوں اور میری آنکھوں سے وہ شفاف اور سچے آنسو چھلک پڑے ہیں جو اس تحریر کے آغاز میں حوالہ بن کر آنے والی کہانی میں موجود اس لڑکی کی آنکھوں میں بھیگ بن کر اترے تھے جو موت سے خوفزدہ شخص سے محبت کرتی تھی۔ناول کا ابتدائیہ وہ مکالمہ ہے جو ”کہنے لگی“ اور ”میں نے کہا“ کے بیچ بڑے بڑے دعووں سے عبارت پاتا ہے۔ اس مکالمے میں مظہر نے اپنے ناول کو محبت کا عجائب گھر، ساےوں اور خوابوں میں لپٹے نادر نمونوں کا سانس لیتا میوزےم اور بیسویں صدی کی آخری دہائی کا تاج محل قرار دیا ہے۔ اس میں اس رکاوٹ کی جانب بھی اشارہ ملتا ہے جو ناول کی تکمیل میں تاخیر کا باعث تھی۔ مظہر نے اس رکاوٹ کو شدید تنہائی کے منہ زور تھپڑوں کا نام دیا ہے۔ تاہم ےہیں وضاحت بھی کی ہے کہ اس کے باعث اس کے اندر کاادیب لمبی تان کر سو گیا تھا، کہانی اس سے روٹھ گئی تھی اور اس کی اجلی تصویر پر دھول جمنے لگی تھی۔ناول کے ابتدائےے میں جب ناول نگار ہر سچے دل کو محبت کا چرواہا اور اپنی ذات کو ایک ادیب، مصور، موسیقار، مجسمہ ساز اور کیمیا گر کا مجموعہ قرار دیتا ہے تو دھیان فوراً پائلو کوئلہوکے ناول ”الکیمسٹ“ کی طرف جاتا ہے.... الکیمسٹ میں بھی ایک چرواہا اور ایک کیمیا دان ہے۔ جن کا تذکرہ ناول کو اسقدر شاندار بنا دیتا ہے کہ اس جانب خیال جاتے ہی میرے اندر مظہر کے زیر نظر ناول کے لےے بھی بے پناہ تجسس بھر جاتا ہے اور میں کامل ےکسوئی اور توجہ سے اسے پڑھنے میں مصروف ہو جاتا ہوں۔امرتا پریتم اور ظفر عظیم کے نام منسوب اور اس ناول کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ ”پھولوں کے ساےوں کی سمفنی“ دوسرا ”پتوں کے ساےوں کی سمفنی“ جبکہ آخری حصہ ”محبت کے ساےوں کی سمفنی“ ہے۔ ےوں ناول کے نام اور ان تینوں حصص کے عنوانات میں سمفنی کے لفظ کا استعمال مجبور کرتا ہے کہ اسے علامت کی سطح پر سوچا جائے اور ناول کے متن میں اس کی تعبیر تلاش کی جائے۔ اسی خیال کے باعث میں نے گمان کیا تھا کہ پورا ناول ایک آرکسٹرا کی صورت ہو گا جس میں مفہوم اور احساس کی رو ایک نغمے کا سا آہنگ لےے ہو گی اور ےہ کہ اس ناول کے تینوں حصوں میں سوناتا کی طرح بظاہر مختلف لیکن باہم متصل، مسلسل اور ہم آمیز چلتوں سے کام لیا گیا ہوگا۔ مگرحیف کہ ایسا نہ ہوا۔ ہوا ےوں کہ ناول کے ابتدائےے میں سمفنی کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہوتا۔ ناول مکمل طور پر پڑھنے کے بعد ےوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اسے ےہ نام طباعت کے عرصے میں دیا گیا تھا۔ حیرت ہوتی ہے کہ اپنی کہانیوں میں علامت کو خوبصورتی سے برتنے والے مظہر کا دھیان سمفنی کو بطور علامت برتنے کی طرف کیو ں نہ گیا؟چودہ ضمنی حصوں پر مشتمل ”پھولوں کے ساےوں کی سمفنی“ سے موسوم پہلا اور طویل باب کہانی کے اس خارجی آہنگ اور جملوں کی ویسی ساخت پر مشتمل ہے جسے مظہر کی شناخت کہا جاتا ہے ۔ تاہم کہانی کا معنوی نظام بہت کٹا پھٹا اور غیر مربوط ہے۔ کہانی پھولوں کے اس پر اسرار طوفان کے منظر نامے سے شروع ہوتی ہے جس نے پورے شہر میں تباہی مچادی تھی۔ بے محبت موسم میں، محبت سے منسوب پھولوں کے اس طوفان میں لازوال انسانی جذبوں کا سارا ریکارڈ بھیگ گیا تھا۔ سب کے دلوں پر جدائی طاری تھی۔ باہر پھولوں کی ناقابل برداشت بوچھاڑ تھی اور موت کی خماری میں مسحور اس ناول کا مرکزی کردار سلطان آدم اپنے فلیٹ کے کمرے میں خود کشی کے ذرےعے محبت کو بچانے کا شغل فرما رہا تھا۔ناول کا پہلا حصہ خود کشی کے اس دلچسپ بیان سے شروع ہوتا ہے اور سلطان آدم کی نعش کو اپنے اندر سمیٹ لینے والے تابوت کے اس کے اپنے گاﺅں کی سمت روانہ ہونے پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے اور مجھے ےوں لگتا ہے ناول کا ےہی وہ حصہ ہے جس کی تکمیل پر ناول کا نام ”تابوت“ تجویز ہوا تھا۔سلطان آدم کی اس کہانی میں بے انتہا خوبصورت، خالص، سچی اور سنہری چھتیس سالہ اس نفیسہ کا بھی ذکر آتا ہے جو بڑی دلجمعی اور توجہ سے اپنے شوہر اور اپنی جنسی ضرورتیں پوری کرتی رہتی ہے تاہم جب سلطان آدم سے ملتی ہے تو ایک مختلف عورت بن جاتی ہے۔ پہلی ملاقات میں جب اسے پتہ چلتا ہے کہ سلطان آدم محبت کی نشانیاں جمع کرتا ہے، دنیا سے محبت بچانے کی کوشش میں مصروف ہے اور بے وفائی کو پھیلنے سے روکنے کا عزم لےے ہوئے ہے تو اسے سلطان آدم کی باتیں بہت عجیب لگتی ہیں۔ناول نگار نے اپنے اس ناول میں جا بجا جسم کے گرد گھومنے والی محبت کی چیختے چنگھاڑتے جملوں میں مذمت کی ہے۔ نمونے کے لےے صرف دو جملے:٭ ”محبت کا جنسی کشش اور دولت سے کوئی تعلق نہیں“٭ ”کچھ مرد طوائف کے ساتھ رہتے ہیں اور اسے عورت بنا دیتے ہیںاور کچھ عورت کے ساتھ رہتے ہیں اور اسے طوائف بنا دیتے ہیں....“اسی حصے میں وہ محبت کے حوالے سے ےہ خوبصورت جملے بھی دیتا ہے:٭ ”محبت کی کہانی دراصل سیلاب کی کہانی ہے جس میں آپ کی انا ڈوب جاتی ہے“٭ ”کسی ایک بھی میلے لفظ، جملے، کج ادائی ےا دل کی کسی غافل دھڑکن سے محبت کے سیب کو کیڑا لگ جاتا ہے۔“صاحب یہ بات کتنی عجیب اور تکلیف دہ ہے کہ محبت کے حوالے سے اتنے خوبصورت جملے تخلیق کرنے والا اور جسم کے گرد گھومتی محبت کی مذمت کرنے والا خود اپنی کہانی کی محبت کو جسم سے اوپر اٹھا ہی نہیں پایا۔ مصنف کے ہاں جسم سے اوپر اٹھنے والی محبت کے کسی واضح تصور کی عدم موجودگی کے باعث لازوال محبت کی نشانیاں جمع کرنے والا سلطان آدم نفیسہ کو بے محبت لوگو ں سے متعارف کرانے کے دوران ےہ اصرار کرتا ہوا ملتا ہے کہ:”ےک طرفہ محبت کوئی محبت نہیں ہوتی“بے محبت لوگوں کی کہانیوں میں خضر لائبریرین کے قتل کی دلدوز خبر افسردگی بن کر برآمد ہوتی ہے۔ ناول نگار بتاتا ہے کہ قاتل لائبریرین کی بیوی شیریں کا چھوٹا بھائی تھا جو اسے چھوڑ کر ایک مالدار شخص کے پاس چلی گئی تھی۔ اس دلچسپ ضمنی کہانی میں ناول نگار لائبریرین کا ےہ کارنامہ درج کرنا ضروری خیال کرتا ہے کہ وہ معاشرے کی کڑی روایات سے بغاوت کرنے والے نوجوان جوڑوں کو محبت کے نام پر اپنے گھر میں پناہ دیا کرتا تھا اور ےہ بھی کہ جب شہر کی فٹ بال گراﺅنڈ میں شراب پینے اور لڑکی کے ساتھ تنہائی میں گھومنے کے جرم میں انہیں کوڑے مارے جارہے تھے تو عین اس وقت خضر لائبریرین نے ایک نوجوان جوڑے کی محبت بچانے کے لےے انہیں گھر میں پناہ دی تھی.... اتنا ”شاندار“ ریکارڈ رکھنے والے لائبریرین کی بیوی اسے محض اس لےے چھوڑ گئی تھی کہ اس کے جنسی ولولے اور جوش میں کمی آ چکی تھی۔اپنے فلسفہ محبت کو جنس کے شیرے پر مکھی بنا کر بٹھانے کے بعد ناول نگار جانوروں اور پرندوں کو حنوط کرنے والے اس شخص کا قصہ چھیڑ دیتا ہے جس نے ایسے شکاری کی دوسری بیوی سے شادی کر لی تھی جو صرف پرندوں کا شکار کھیلتا تھا مگر پرندوں اور جانوروں کو حنوط کرنے والا شیر کا شکار کرنے کا دعویٰ کرتا تھا۔ بعد ازاں جب ےہ کھلا کہ وہ جھوٹ بولتا تھا تو وہ اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔نفیسہ اور سلطان آدم کہانی میں ایک مرتبہ پھر ملتے ہیں۔ ےہ دونوں کے درمیان آخری ملاقات ہے۔ اس ملاقات میں نفیسہ اپنا ایک خواب سناتی ہے جس میں کتابوں میں پڑی نظر انداز شدہ تتلیاں زندہ ہو گئی تھیں۔ سلطان آدم ان تتلیوں کو نیک لوگوں کی روحیں قرار دیتا ہے اور ےہ پیغام اخذ کرتا ہے کہ:”ےہ موت کا موسم ہے۔ بہار کے سارے رنگ خودکشی کے ہوتے ہیں....“پھر سارا زور اس بات پر صرف کر دیا جاتا ہے کہ خود کشی کا اپنا رنگ ہی نہیں مہک بھی ہوتی ہے اس کی اپنی ایک موج ہوتی ہے اس میں ترنگ اور گرمجوشی ہوتی ہے اور ےہ کہ خود کشی اپنے محبوب کے آنسو پینے کا عمل ہے۔ خودکشی جیسے فرار کے عمل کو دھنک رنگ دے کر مہکتا فعل ثابت کرنے سے کیا ناول نگار ختم ہوتی محبت کو فنا کا ایک اور جرعہ پیش نہیں کر رہا؟ اگر ممکن ہو تو ناول نگار کو اس پر غور کرنا چاہےے اور جان لینا چاہےے کہ موت بے شک ایک خوبصورت تخلیقی عمل کی صورت عالمی ادب کا حصہ بنی ہے کہ ےہ حیات نو کی علامت بھی ہوتی ہے مگر خود کشی کو فرار اور محبت کے علاوہ زندگی کی بھی توہین تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔بات نفیسہ اور سلطان آدم کے بیچ آخری ملاقات کی ہورہی تھی اسی ملاقات میں نفیسہ سلطان آدم کو ایک ایسا سفید لفافہ بھی دیتی ہے جو بعد میں اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور ہوا اسے ادھر اُدھر اڑائے لےے پھرتی ہے۔ لفافے، ہوا اور سلطان آدم میں آنکھ مچولی کی تفصیلات اتنی طویل ہو جاتی ہیں کہ پڑھنے والا سلطان آدم کی طرح ہلکان ہو جاتا ہے پھر جب وہ اس لفافے کو کھولتا ہے تو اس میں سے کوئی بھی ایسی چیز برآمد نہیں ہوتی جو سلطان آدم کی مشقت کا جواز فراہم کر سکے۔ایک اور موت کے سرسری تذکرے کے بعد کہانی میں خود کشی کر کے مرنے والے شاعر امین مسافر کا تذکرہ اس کی کمزور اور بے رس نظموں کے ساتھ آتا ہے۔ خود کشی کے ذریعے زندگی کی توہین کرنے والے کی محبت کا قصہ بھی سن لیجےے۔ اسے ایک ایسی عورت سے ناقابل ےقین حد تک محبت ہو گئی تھی جس کے دل میں پہلے ہی ایک مرد رہتا تھا اور جسے اس بات سے اتفاق نہیں تھا کہ دنیا کا امیر ترین شخص وہ ہوتا ہے جس کے پاس محبت ہوتی ہے۔ امین مسافر کی ناکام محبت کے بعد خود کشی والی شام وہی شام تھی جب ساڑھے چار گھنٹے قبل ہی پھولوں کو سلطان آدم کی خود کشی کی منصوبہ بندی کی خبر ہو گئی تھی اور شہر کے تمام پھولوں نے اسے روکنے کے لےے رات گئے تک ناکام کوشش کی تھی۔ مجھے ےہاں CONVREVEکی وہ بات دہرانی ہے جو اس نے اپنے مختصر ناول INCOGNITA میں1692ءمیں کہی تھی۔”ناول معروف اور جانے پہچانے عوامل پر مشتمل ہوتا ہے اور روزمرہ کے واقعات کی ترجمانی کرتا ہے۔ تعجب خیز واقعات اور حادثے بھی ہوتے ہیں لیکن ایسے نہیں جو ناقابل فہم اور ناقابل عمل ہوں ےا پھر ہمارے عقائد اور خیالات سے بہت زیادہ بعید ہوں“ایک بوسیدہ بات دہرانے کا ےہ مقصد ہر گز نہیں ہے کہ میں ناقابل فہم اور ناقابل عمل صورت حال کو فکشن کا حصہ بنانے کے خلاف ہوں۔ ایسا ہو سکتا ہے مگر میرا ذاتی خیال ہے ےہ تب ہی ممکن ہے جب واقعے، خیال ےا احساس کو تحلیل کر کے اس کا جواز پیدا کر لیا جائے۔بے جواز خود کشیوں، سیکنڈ ہینڈ محبتوں اور بے وفا عورتوں کے ایسے ہی تذکروںکے بعد مری ہوئی تتلیوں، پژمردہ پھولوں اور مردہ پرندوں کے دفنائے جانے کا منظر کھینچا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ کہانی میں سلطان آدم کا دوست عبداللہ اور صادق ترکھان داخل ہو جاتے ہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی کہانیوں کے بیچ تابوت تیار ہوتا ہے اور سلطان آدم کی نعش تابوت میں بند ہو کر اس شہر سے رخصت ہو جاتی ہے جس میں مرحوم نے پچیس سال گزارے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ناول کا پہلا حصہ ختم ہو جاتا ہے۔ سچ جانےے تو ےہیں پر ناول بھی ختم ہو جاتا ہے۔ےوں لگتا ہے ناول کے اگلے دو حصے مصنف نے ذہنی پراگندی کے عرصے میں لکھے ہیں۔ ےہی وجہ ہے کہ ےہ نہ تو ناول سے جڑ پائے ہیں اور نہ ہی آپس میں مربوط ہیں۔ تحریر بھی سپاٹ اور بے رس ہو گئی ہے۔ بے سمتی کی شکار اس کہانی میں رفاقت علی کا تذکرہ ہوتا ہے جو سلطان آدم کا دوست ہے اور جسے اس نے خود کشی سے پہلے چٹھی لکھی تھی۔ ےہ چٹھی سلطان آدم کی اس خواہش کا جواز فراہم نہیں کرتی کہ آخر وہ گاﺅں میں دفن ہونے اور شہر سے کسی بھی فرد کا میت کے ساتھ گاﺅں نہ جانے پر کیوں مصر تھا۔ چوہدری شیر بہادر، رضیہ، ناہید، رکھا ماچھی، نور دین، گلابا چنگڑ، شیرو مصلی، کرمو سانسی، ےوسف ، شیرو، پرنسپل حسین، سفینہ سکول ٹیچر جمال، ریکارڈ کیپر مرےم، پوسٹ ماسٹر حجازی، ےاسمین، گل رانی، دلدار، فراست، جنید، چپڑاسی صدیق، ڈاکٹر ارشد، نذیر روگی، شوکت منیاری فروش، پائندہ خان، محبت جان اور روشن جان کی اپنی اپنی کہانیوں پر مشتمل اس دوسرے حصے کی طرح تیسرا حصہ بھی غیر متعلق واقعات سے اٹا پڑا ہے۔ اس آخری حصے میں جب کہانی تحریم، طالب زرگر، نرگس، مولوی رحمت اللہ، حافظ رمضان، کیلاش قبیلے اور کنٹکی سے ہوتی ہوئی شاہ پری کے اس سوال پر پہنچتی ہے کہ”محبت کیا ہوتی؟“ تو ایک طویل وقفے کے بعد ایک خوبصورت جملہ لطف دے جاتا ہے:”محبت کسی طوفانی موسم میں ایک ابابیل کا اچانک کھڑکی کے شیشے سے ٹکرا جانا ہے۔“پیر شرافت، جہاں آرا اور فیروز کے تذکرے میں ایک بار پھر اس عورت کا ذکر ہوتا ہے جو وفا کے نام پر بے وفائی اور بے وفائی کی صورت میں وفا کے عمل سے گزرتی ہے۔ مصنف ناول میں کسی حد تک اپنا ےہ پیغام ظاہر کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ:٭ عورت سامنے کی چیزوں سے پیار کرتی ہے۔٭ عشق صرف مرد کرتا ہے۔٭ عورت صرف شادی کرتی ہے ےا شادی کی غرض سے عشق اپنے اوپر طاری کر لیتی ہے۔٭ عورت ایک چھت او ر اپنی بقا کے لےے افزائش نسل کرتی ہے۔٭ عوت ایک جیل ہے۔٭ پہلے صرف مرد بے وفا ہوا کرتے تھے اب ےہی بے وفائی عورت نے بھی سیکھ لی ہے۔٭ مرد عورت میں وفا تلاش کرنے لگا ہے تبھی تو محبت ختم ہوتی جا رہی ہے۔٭ اب عورت بھی دو مردوں سے محبت کا کھیل کھیلتی ہے۔٭ زندگی اس مکار عورت کی طرح ہے جو مالی اور جسمانی عیاشیوں کی خاطر کئی مردوں سے جز وقتی محبت کا کھیل رچاتی ہے۔٭ زندگی اس بے وفا عورت کی مانند ہے جس کی آنکھیں رات بھر کی میلی تھکن سے چور اور منہ لیس دار سانسوں کی بو کے بھبھکے چھوڑتا ہے۔مصنف نے عورت اور زندگی کے بارے میں اپنے اس نقطہ نظر کو قدرے واضح انداز میں سلطان آدم کی زبانی وہاں بیان کیا ہے جہاں ٹیچر سلطان آدم کو طلب کر کے اسے لڑکیوں سے الجھنے اور ان کے ساتھ بد سلوکی سے منع کرتا ہے۔ ےہاں سلطان آدم ےوں گویا ہوتا ہے....”ٹیچر ےہ لڑکیاں نہیں بلیاں ہیں“مصنف کا کہنا ہے کہ شاےد ےہی وجہ رہی ہو گی کہ زندگی بھر سلطان آدم ہمیشہ اس وقت کمرے سے باہر نکل جایا کرتا تھا جب وہ کسی بھی بلی کو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھتا تھا۔ سلطان آدم کی زبان سے مصنف ےہ جملے کہلواتا ہے:”بلیاں مجھے اس لےے بھی اچھی نہیں لگتیں کہ وہ چوہے کھاتی ہیں، سات گھر پھرتی ہیں، ایک بلے پر اکتفا نہیں کرتیں، مکاری اور چالاکی سے گھات لگا کر معصوم پرندوں کا شکار کر لیتی ہے۔“مصنف ےہ بھی بتاتا ہے کہ سلطان آدم کو بلیوں کے زیادہ بچے جننے کی عادت بھی سخت ناگوار گزرتی تھی۔ مرد کو بھی اس ناول میں تقریباً اسی قسم کی بے وفائی کا مرتکب دکھایا گیا ہے مگر اسے اس قدر دلکش بنا کر پیش کیا گیا ہے کہ وہ محبت کو بچانے والا بن گیا ہے۔ اس کا جواز مصنف کے پاس کیا ہے؟ میں نہیں جانتا تاہم ناول میں اس کا کوئی جواز فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ےہ روےہ مصنف کی نفسیاتی کجی کا شاخسانہ بن کا ظاہر ہوا ہے۔ناول کے آخر میں مصنف سلطان آدم کی آخری خواہش کے احترام میں نصب کےے گئے لیٹر بکس کا تذکرہ کرتا ہے جسے معبد کا نام دیا گیا تھا۔ اور کنواری محبتوں سے اعتنا نہ رکھنے اور سیکنڈ ہینڈ گدلی محبتوں اور خود کشیوں کے ذرےعے معدوم ہوتی محبت کو بچانے کا دعویدار مصنف اپنا ناول اس جملے پر ختم کرتا ہے۔”محبت کی ایک نہیں کئی زندگیاں ہوتی ہیں“میں نے پورے ناول میں کئی زندگیوں والی محبت کو باسی جنس کے متعفن شیرے پر ہی منڈلاتے پایا ہے۔ فکری سطح پر محبت کا کوئی اعلیٰ تصور پوری تحریر میں نہیں ملتا، بے شمار رنگوں کا تذکرہ ہوتا ہے مگر محبت کے ساتھ اپنے تشریحی ےا علامتی تعلق کو ظاہر کےے بغیر ےہ تذکرہ بھی بے کار چلا جاتا ہے۔ لفظ سمفنی اور ہارمنی کو بار بار دہرانے والے مصنف کا دعویٰ ہے کہ اس کے بچپن کے زمانے میں اس کی ماں نے ایک بہت بڑا پیانو اس کے اندر رکھ دیا تھا۔ مجھے ےوں لگتا ہے کہ مصنف کی بے اعتنائی سے اندر پڑا ےہ پیانواب کاٹھ کباڑ میں بدل چکا ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو اسے ورجینیا وولف کا ناول The Yoyage Outضرور ےاد ہوتا جس کا ایک کردار ناول لکھنے کے بارے میں ےوں خیال ظاہر کرتا ہے:”میں ناول اس طرح اور اس مقصد کے لےے لکھنا چاہتا ہوں جیسے کوئی پیانو پر بیٹھتا ہے۔ میں اصل شے کو نہیں دیکھتا اور نہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ میرے پیش نظر تو وہ بات ہے جو چیزوں کی تہہ میں ہوتی ہے۔“اور مصنف کو ےقینا اس سے اتفاق ہو گا کہ کسی بھی تخلیق پارے کی تہہ مےں ےا باطن میں آرگینک ےونٹی ہی وہ واحد شے ہوتی ہے جو اسے فن پارے کا درجہ دے سکتی ہے۔دنیا سے معدوم ہوتی محبت کو بچانے کے لےے لکھے جانے والے اس ناول میں محبت ہی کو موت کی طرف کھلنے والی کھڑکی میں کھڑے دیکھ کر میرے پورے بدن پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے کیونکہ میں اس کہے سے متفق ہوں کہ ہر لکھنے والا اپنے مشاہدات، تجربات، شعور اور لاشعور ہی کو لکھتا ہے اور بیچ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی جبلت کو رکھتا چلا جاتا ہے۔ ایسے میں مجھے وہ شخص ےاد آتا ہے جو ”گڑیا کی آنکھ سے شہر کو دیکھو“ کے پہلے افسانے میں موت کی کھڑکی سے باہر جھانک رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی میرے لرزتے بدن پر ہنسی کا دورہ پڑتا ہے حتیٰ کہ آنکھیں اسی کہانی کی لڑکی کے شفاف آنسو مستعار لے لیتی ہےں۔ہنسی مجھے اپنے پہلے کے صریح بے وقوفانہ اندازے پر چھوٹتی ہے۔ میں نے جس کردار کے پوست میں مصنف کو تلاش کیا تھا، وہ تو وہاں تھا ہی نہیں.... تب میرا دھیان موت کی طرف کھلنے والی کھڑکی کی سمت ہو جاتا ہے اور وہاں وہ خوف زدہ شخص نظر آتا ہے جو خود ہی اپنی تخلیقی موت کو جرعہ جرعہ پی رہا ہوتا ہے۔ ےہ دیکھ کر اتنے شدید صدمے سے دوچار ہوتا ہوں کہ میں آنکھوں سے اُمنڈتے آنسوﺅں سے اپنا دامن بھگو لیتا ہوں۔٭٭٭