Sunday, February 15, 2009

منشایاد

پنجابی ناول.... ٹانواں ٹانواں تارا.....کے چند کردار
محمد حمید شاہد


”بات پاواں بتولی پاواں“ کی ذیل میں ”ٹانواں ٹانواں تارا“ کے مصنف محمدمنشایاد نے ایک عجب مغالطہٰ قاری کے ذہن میں ڈالنے کی سعی کی ہے پنجابی کا ےہ ناول پڑھتے ہوئے اسے ذہن سے بالکل نکال دینا از بس ضروری ہے۔ مناسب یہ ہو گاکہ آپ دیباچہ ناول کے بالکل آخر میں پڑھیں ورنہ پہلے صفحے کی گمراہی آخر تک سنبھلنے نہ دے گی۔ دیباچے میں منشایاد نے ناول کے آخری منظر نامے میں موجود اس بوڑھے کا ذکرکیاہے جو پختہ سڑک کے بیچوں ننگے پاﺅں چلا جا رہا تھا پھر جب اس نے چند بچوں کو ریت پر کھیلنے والے بچوں میں سے ایک وہ خود تھا جسے کتابوں اور خوابوں کی گھٹی پلائی گئی تھی، تب چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا اور کہانیوں نے اس کے اندر ککلی ڈالنا شروع کر دی تھی۔ریت پر لکیریںبنانے، خوابوں اور کتابوں گھٹی اور کہانیوں کی ککلی والی باتوں کی حد تک میں منشا ےاد سے متفق ہوں۔ ےقینا ےہ سچ ہوگا مگر ےہ بیان بالکل مغالطہٰ آمیز اور پانچ سو اٹہتر صفحوں والے ناول کے سارے متن سے متضاد ہے کہ وہ بچے جو اس وقت ریت پر لکیریں ڈال رہے تھے ان میں سے ایک ناول نگار خود تھا۔ اس لےے کہ جب وہ بوڑھا کہ جس کے حواس کی ڈور اس کی گرفت سے پھسل گئی تھی اور وہ کٹی پتنگ کی طرح تپتی سڑک کے فلک پر ننگے قدموں ڈول رہا تھا تب تک ناول نگار کے قدموں کے چھالے بھی صاف صاف دکھنے لگے تھے۔ ریت پر لکیریں ڈالنے کا وقت تو بہت پہلے بیت چکا تھا البتہ وہ ساری اذیت جو ریت پھانکتے اور کنکر چباتے بوڑھے کے چہرے پر جھلک دے رہی تھی اسے ناول نگار نے ”ٹانواں ٹانواں تارا“ کے ہر کردار کے مقدر کا حصہ بھی بنا ڈالا تھا۔ ایسے میں مجھے ڈاکٹر احسن فاروقی کا کہا ےاد آیا:”ناول زندگی کا آئینہ ضرور ہے مگر اس آئینے میں زندگی کا عکس گہری اور بدلی ہوئی حالت اختیار کر لیتا ہے“”ٹانواں ٹانواں تارا“کا مصنف بھی اسی آئینے میں کہیں تو پوری طرح ایک کردار میں خود جا بیٹھتا ہے اور کہیں لخت لخت اپنا وجود چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ ےہی وجہ ہے کہ میں ان بچوں سے بالکل مانوس نہیں ہو پاتا جو ریت پر بارہ کٹال کھیل رہے تھے تاہم اس بوڑھے کے بہت قریب ہو جاتا ہوں جس کے پاﺅں میں چھالے پڑ گئے تھے۔ڈاکٹر احسن فاروقی کی ہی ایک اور بات ےا دآرہی ہے:”ناول میں زندگی کا نقشہ ہونا چاہےے ‘جیتا جاگتا.... اور ےہ کہ ناول نگار کے لےے ضروری ہے کہ وہ اپنے تجربات ہی کا بیان ناول میں کرے....“اس تناظر میں جب میں ”ٹانواں ٹانواں تارا“ دیکھتا ہوں تو غیر ارادی طور پر ہر اس مقام کو نشان زدہ کرتا چلا جاتا ہوں جہاں خود ناول نگار نے اپنے تجربات بیان کےے ہیں۔ ناول پڑھ چکتا ہوں تو میں دو کیفیات سے گزرتا ہوں پہلی ےہ کہ میں نے صفحہ نمبر۷۳۴ سے ۲۷۴ کے مسلسل ۵۳ صفحات کو چھوڑ کر لگ بھگ ہر دوسرے صفحے کو نشان زد کر دیا تھا ۔ دوسرا احساس ےہ تھا کہ احسن فاروقی نے جو کہا تھا وہ مکمل طور پر سچ نہیں تھا۔ تاہم ےہ اپنی جگہ سچ ہے کہ منشا ےاد نے زندگی کے بھر پور اظہار کے لےے مضبوط کردار نگاری کا سہارا لیا ہے اور اپنے کرداروں کو اس طرح خوبصورتی سے تعمیر کیاہے کہ وہ ہمارے شعور میں جا بستے ہیں نہ صرف ہماری ہمدردیاں حاصل کر لیتے ہیں، بلکہ ہمارے دلوں کو بھی اپنی مٹھیوں میں لے لیتے ہیں۔ ےہی وجہ ہے کہ جب بھاباسو جیسے شیہنہ جوان کی بالکل آغاز ہی میں، محض بہتر صفحے گزرنے کے بعد، ٹانگیں ٹوٹ جاتی ہیں ےا پھر معصوم اور پاکیزہ حسن والی نجی صفحہ نمبر ۴۷۱ پرہی اپنی معصومیت اور عصمت سرور جیسے درندے کے ہاتھوں تار تار کروا بیٹھتی ہے تو ےقین جانےے بڑا دکھ ہوتا ہے۔ان کرداروں کے پیکر اتنی نفاست اور محبت سے تراشے گئے تھے کہ جب تک اپنی مکمل اور پاکیزہ صورت میں رہے اپنے ہونے کا بھر پور احساس دلاتے رہے مگر جونہی ناول نگار نے انہیں بے دردی سے داغدار کیا‘ سسکتی زندگی گزارتے نظر آئے۔ میں بھی ان کرداروں کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ہوں۔ انہی کے ساتھ ہنستا اور روتا رہا ہوں۔ مگر جب ےہ کردار ناول کے خالق کی بنائی ہوئی تقدیر کا شکار ہوئے تو میرے دل میں اس خواہش نے انگڑائی لی تھی کہ کاش ایسا نہ ہوتا۔ میں تصور کر سکتا ہوں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ناول کیا صورت اخیتار کرتا مگر منشا ےاد کے قلم کے جبر کا راستہ نہ ”کاش“ روکتا ہے اور نہ ”اگر“ ۔ ےوں وہ بڑی محبت سے تراشیدہ خوبصورت کرداروں کو بے دردی سے توڑ پھوڑ کر عین چلتے قصے کے وسط سے ایک اور کردار انتہائی مہارت سے تراشتاہے۔ ےہ نیا کردار خود بخود پہلے کردار کی کچھ ےوں جگہ لے لیتا ہے کہ وہ ساری ہمدردیاں بھی جو پہلے کرداروں سے وابستہ تھیں، سمیٹ لیتا ہے۔ ےہاں منشا ےاد کا فن عروج پر پہنچ جاتا ہے اور ےہیں سے ناول ایک نئی منزل کی سمت پھر سے رواں ہو جاتا ہے‘ ےوں کہ قصے کے نئے پن کا جادو پھر سے سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے۔ پے در پے وقوعے جنم لیتے ہیں، نئی نئی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں نئے اور اجنبی کردار ےکاےک سامنے آتے رہتے ہیں اور ےوں سامنے آتے ہیں کہ پوری قامت کے ساتھ آنکھوں میں سما جاتے ہیں۔ تاہم ےہ سارے کردار اس حد سے آگے نہیں بڑھتے جو مصنف نے ان کے لےے مقرر رکھ چھوڑی ہے۔ وہ مصنف کے لکھے کو نہ صرف برضاورغبت قبول کرتے ہیں بلکہ اس حیثیت سے قاری بھی انہیں بسر و چشم قبول کرتا چلا جاتا ہے۔صاحب ‘ایک کردار ایسا ہے کہ مصنف نے جس کے لےے پڑھنے والوں کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کرنے کو ایڑی چوٹی کا زور لگادیا ہے مگر قاری اسے اپنے دل میں مناسب جگہ نہیں دے پاتا حالانکہ وہ کردار بہت خوبصورت اور بہت دلآویز ہے۔ ےہ کردار نجی کی ناجائز اولاد اور سلیم کی محبوبہ نینا کا ہے، جو خالد کی لے پالک بلکہ اصل بیٹی کی طرح اس گھر میں رہتی ہے اور ےوں رہتی ہے کہ اس کی خوشبو سے سارا گھر مہکتا رہتا ہے۔ جس کے وجود کی مہک سے خالد کے گھر کے درو دیوار سرشار تھے خالد کے بیٹے نعیم کے دل پراس وجود کی مہک دستک نہ دے پائی تھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح قاری کے دل تک اس مہک کی دسترس نہیں ہو پاتی۔ ےہ کردار آخر تک پہنچتے پہنچتے اس قدر بے بس لاچار اور مظلوم ہو جاتا ہے کہ بدلے میں اسے پڑھنے والوں کی ڈھیروں ہمدردیاں ملنی چاہیےں، مصنف بھی ایسا ہی چاہتا ہے مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ قارئین کی ساری ہمدردیاں اس بوڑھے کی جھولی میں جا پڑتی ہیں جس کے ماتھے کا داغ اس خوبصورت لڑکی کو بنا دیا جاتا ہے، ہمدردیاں سمیٹنے والا بوڑھا کوئی اور نہیں اس ناول کا مرکزی کردار خالد ہے۔نکے پنڈ میں پلنے بڑھنے والا خالد، جس کا باپ حکیم بن گیا تھا۔ ایک وقت تھا کہ خالد کے بزرگ بارہ تیرہ ایکڑ اراضی کے مالک تھے۔ یہ اراضی وہ خود ہی کاشت کرتے تھے لیکن اس کے دادا نے اپنی زمین ملک خوشی محمد کو لکھ دی اور خود سائیں جی ہو گئے تھے کہ انہیں اپنی نسل کو ختم ہونے سے بچانا تھا۔ خالد کی دادی نے چرخہ کات کات کر گھر کا خرچ پورا کیا۔ دادا جی فوت ہو گئے اور خالد ایسے ہی حالات میں پڑھ لکھ کر شہر پہنچ گیا۔ وکیل بنا، محبت کی۔ جس سے محبت کی اس سے شادی نہ کر سکا۔ جس سے شادی کی وہ زندگی کا حصہ نہ بن سکی۔ جو اس کے لےے اجڑ گئی اسے دیکھا تو تڑپ اٹھا کہ اس کو تو زندگی کا ساتھی ہونا چاہےے تھا۔ کفارہ ےوں ادا کیا کہ اس کی ناجائز بیٹی کو اپنے گھر میں بیٹی بنا کر لا بسایا مگر اس کے دشمن نے اسی کو اس کے لےے گالی بنا دیا۔ وہ اپنے حواس کھو بیٹھا۔ اس کے لےے سب کچھ اندھیر ہو گیاتھا اور وہ ننگے پاﺅں ریت کی ڈھیری پر جا بیٹھاتھا۔قاری جو خالد کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوتا ہے ےہاں پہنچ کر اس کا دل بھی بیٹھ جاتا ہے۔ ایسے میں کئی خواہشیں جنم لیتی ہیں .... کاش مصنف اتنا بے درد نہ ہوتا، اسے عاشی سے ہی ملوا دیتا کہ جس کے بدن کے مہک ناول کے صفحوں سے بھی اٹھ رہی ہے۔ ایسا ممکن نہ تھاتو کاش ولی محمد سنیارے کی بیٹی نجمہ ہی اس کا مقد ربن جاتی کہ جو خود سونے کی ڈلی تھی۔ اور نہیں تو زینت کم از کم بالکل ملوانی نہ ہوتی، ےوں ہوتی جیسے شہناز تھی‘ قہقہے لگانے والی ، جملے پھینکنے والی، دلگیری کرنے والی‘ الجھنوں کو سلجھانے والی۔ مگر ناول جوں جوں آگے بڑھتا ہے ظالم دکھ کے پنجوںکی گرفت دل پر مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایسے میں فرحانہ بھی بہت پیچھے رہ جاتی ہے اور میں سوچتا ہوں، فرحانہ کو اتنا پیچھے تو نہیں رہنا چاہےے تھا۔ مگر میرے چاہنے اور خواہش کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے، کہانی کو تو اسی نہج پر چلنا تھا جس پر ناول نگار چلانا چاہتا تھا۔ سو ناول جب اپنے اختتام کو پہنچتا ہے تو میں اپنے سارے ”اگر مگر“ بھول جاتا ہوں اور تسلیم کر لیتا ہوں کہ منشا ےاد جیسا فنکار کہانی کو قاری کی مرضی سے نہیں بلکہ خود اپنی مرضی سے جیسے چاہتا ہے ‘چلاتا ہے اور ےہ بھی اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ناول کے ایسے کردار پنجاب سے اور پنجابی زبان میں ہی تخلیق کےے جاسکتے تھے اور انہیں کوئی اور نہیں صرف منشا ےاد ہی تراش سکتا تھا۔٭٭٭

No comments: