Saturday, February 14, 2009

فاطمہ حسن

کہانیاں گُم ہو جاتی ہیں
محمد حمید شاہد
میں جس فاطمہ حسن سے آگاہ رہا ہوں وہ ”دستک سے در کا فاصلہ“ والی ہے حالانکہ آصف فرخی ، بہت دن
گزرے اس کی کہانیوں کی کتاب مطالعہ کے لےے عطا کر گئے تھے۔ میں نے ساری کہانیاں تب ہی پڑھ ڈالی تھیں.... ایک ہی نشست میں۔ فاطمہ حسن کی کہانیاں ایک ہی ہلّے میں بڑھی جا سکتی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک بھولی بھالی بچی ایک ہی وقت میں ایک ساتھ کئی کھلونوں سے لطف اندوز ہو سکتی ہے.... ایسے کھلونوں سے جو کترنوں سے بنائے جاتے ہیں۔ اپنے اصل کی چھانٹن لو کر بے وقعت ہو جانے والی کترنوں سے بچی کھیلتی ہے.... پہروں کھیلتی ہے۔ انہیں کچھ عرصہ سنبھال کر رکھتی ہے.... کچھ عرصہ ہی تو سنبھال کر رکھ سکتی ہے اور پھر یہ کترنیں گُم ہو جاتی ہیں۔ فاطمہ حسن کی ان گُم ہو جانے والی کہانیوں کی طرح جو بوسیدہ ڈٓئری سے برآمد ہو کر ایک کتاب میں سما گئی ہیں۔ ایک ہی ہلّے میں پڑھ لی جانے والی کتاب میں۔ میں نے وہ کتاب پڑھ تو لی تھی مگر ایک شاعرہ اپنے پورے وجود کے ساتھ میرے ساتھ موجود رہی۔ دستک سے در کا فاصلہ والی شاعرہ۔ ”بہتے ہوئے پھول“ اس کی شاعری کا پہلا مجموعہ تھا وہ میری نظر سے نہیں گزرا مگر ”دستک سے در کا فاصلہ“ ان جادوئی بادلوں کی طرح ہے جو اچانک پھٹ کر اپنا ساراپانی انڈیل دیتے ہیں آپ کے وجود کے Catchment ایریا میں.... یوں کہ آپ کے باطن میں موجود لئی کناروں سے چھلکنے لگتی ہے.... اُبلنے لگتی ہے.... طغیاں ہو جاتی ہے۔ .... اور وحشی ہو کر پھیل جاتی ہے۔ اتنی وحشت کہ محبت بھی سکوں دے نہ سکے اتنی شدت کہ چٹختی ہو ہر اِک رگ جیسے وہ تلاطم ہے کہ آنکھوں سے اُمنڈ آئے لہو دل یہ لگتا ہے کہ جیسے کسی گرداب میں ہے کیا کروں روو ¿ں، ہنسوں، رقص کروں یا ماتم جب وحشت میں جذبے کچھ اس طرح ٹھاٹیں ماریں کہ روح اور بدن کے سارے طاس کا پانی لہو بن کر دل سے اور رگِ جاں سے اُمنڈ پڑے۔ اس شدت سے اور یوں دھاریں مار مار کر اُمنڈے کہ اندر سے خالی کر دے تو پہلی پناہ گاہ جی بھر کر رونا ہو سکت ہے.... ذرا فاصلہ زیادہ ہو تو ساری شدت کو قہقہوں میں بھی اُڑایا جا سکتا ہے.... بعن میں بغاوت کا غدر اُٹھے تو یہ تُندی رقص کی توانائی میں ڈھل سکتی ہے یا پھر عمر بھر کے لےے ماتمی علم تو اُٹھایا ہی جا سکتا ہے مگر فاطمہ حسن نے شعر کہے ہیں:کہو تو نام میں دے دوں اسے محبت کا جو اِک الاو ¿ ہے جلتی ہوئی رفاقت کا یا پھر یوں کہ: یہ جاگتی ہے تو پھر دیر تک جگاتی ہے مرے وجود میں سوئی ہوئی جو وحشت ہے وحشت کے ایسے عالم میں شاعری کے بھاگ جاگ اٹھا کرتے ہیں۔ ایسے میں غزلیں تو نوکِ قلم سے کاغذ پر اتر کر اہلے گہلے پھرنے لگتی ہےں۔ مگر کہانیاں .... جی ہاں کہانیاں گُم ہو جاتی ہیں .... شاعری کے دھارے کے بیچ میں اپنی بات روکتا ہوں کہ ژاں پال سارتر کی ایک بات یاد آرہی ہے اس نے کچھ اس طرح کہا تھا: ”تخلیق حیوانی نفس کی وہ چیخ نہیں ہے جو درد سراسیمگی اور خوف کے عالم میں قضا ہو جاتی ہے۔“ مگر غزل تو ہے .... جذبوں سے بھری ہوئی رنگ پچکاری جیسی، دہشت سے نکلی ہوئی چیخ جیسی اور حیرت کے اس لمحے کی طرح جو عین صلیب پر اُترے اور زندگی کا جوہر کشید کرے۔ اگر ایسی نہ ہوتی تو افتخار عارف یہ کیوں کہتا: جیسی لگی تھی دل میں آگ سیدی غزل ہوئی نہیں لفظ سنبھل نہیں سکے درد کی تیز دھار میں انتظا ر حسین کا کہنا ہے کہ شاعر تو ہمیشہ زندگی کا جوہر کشید کرنے والے لمحے کی تاک میں رہتا ہے اور میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کہانیاں ایسے لمحوں میں گم ہو جاتی ہیں، شاعری میں یا پھر وقت کی چیزویںقبر میں۔ فاطمہ حسن نے یہ کہانیاں تب لکھی تھیں جب اس کی شاعری زندگی کا جوہر کشید کرنے میں طاق ہونے کے تیور دکھانے لگی تھی اور فاطمہ انہیں ایسے میں منظرِ عام پر لائی ہے جب شاعری کے لشکارے نے اسے اجال دیا ہے۔ ایک پہچان رکھنے والی شاعرہ پلٹ کر دیکھتی ہے تو گم ہو جانے والی کہانیوں کو تلاش کرتی ہے۔ مجھے اس کا یوں پلٹ کر دیکھنا کھَلتا نہیں ہے کہ ایسا ہونا بہت اچھا ہو سکتا ہے ، ایک عورت جب چھوٹ چکے آنگن کو مُڑ کر دیکھتی ہے تو یوں اس کی چال میں نیا اعتماد اور نئی تمکنت آ جایا کرتی ہے مگر ہوا یوں ہے کہ فاطمہ حسن نے کہانیوں کو بالکل ویسا ہی رہنے دیا ہے جیسے وہ تھیں۔ ان میں وہ بوسیدہ نعرہ بھی کہیں کہیں جھلک دے جاتا ہے جو بعد میں مغرب کے ہوس ہونٹوں سے نیو ورلڈ آرڈر کی رال بن کر ٹپک پڑا اور جس کو J. C. Brook نے مغربی بنیاد پرستی کَہ دیا تھا۔ ایسی بنیاد پرستی جو Consumerismاور Marketism کے تحت عورت کو ایسی خود مختاری دیتی ہے جس میں وہ فقط جسم ہو جاتی ہے، خوش نما اور لذیذ جسم .... آرائشی اور تہنیتی کاغذوں میں لپٹا ، بظاہر ہر کہیں موجود جسم مگر فی الوصل Consumersکی اشتہا بڑھاتا Commodityبن جاتا جسم، تاہم فاطمہ کی شاعری اور کہانیوں میں یہ نعرہ بہت دھیما ہے اور اس میں ویسی جھجک اور حیا ہے جو دستک کے لےے اُٹھے ہاتھ اور دستک کے لےے منتظر در کے درمیانی وقفے میں پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ تو فہمیدہ ریاض بنتی ہے نہ کشور ناہید .... وہ فاطمہ حسن ہی رہتی ہے اور اپنی الگ شناخت بناتی ہے۔ آصف نے کتاب کے آخر میں شامل مضمون میں لکھا کہ جب کہانی کے نام پر فاطمہ حسن نے اسے ڈائری تھما دی تھی ، تاریخیں بہت پرانی ہو چکی تھیں تو بیچ میں کئی صفحے سادہ تھے .... اس نے یہ بھی لکھا کہ کئی کہانیاں حاشےے پر تھیں، گھبراہٹ یا بے زاری کے مارے تیز تیز بے طرح اتاری ہوئی۔ یوں لگتا ہے آصف نے ان کہانیوں کو ایسے ہی چھاپ دیا ہے۔ Separators کی صورت خالی رہ جانے والے اوراق کے بیچ۔ ورنہ اس ساری کتاب میں چار سے زیادہ کہانیاں نہیں ہیں۔ پہلی کہانی کے کرداروں میں تو وہ ہے جو دھیرے دھیرے کچھ کہے جاتی ہے اپنے آپ سے، اپنی سہیلی سے یا پھر اس سے جس کے بارے میں اس کا گما ن ہے کہ اس کے سبب وہ شناخت سے محروم ہے۔ اس ایک کہانی کو ”بلیک آرٹ“ ، ”پری میچور برتھ“، ”عام سی لڑکی“ ، ”چھوٹے رے لوگ“، ”چھتیس نمبر“ ، ”وقت اور فاصلہ“، ”چوتھے کونے کا آسیب“ ، ”سفر میں “ ، ”جھوٹے پھل“، ”بدلتی ہوئی جون“، ”تلاش“ اور ”وہ مجھے دیکھتی رہی © ©“ کی کترنوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ کہیں کہیں یہ کترنیں سندھ کی چادر رلّی کی طرح ہو گئی ہیں .... دیر تک ساتھ دینے والی اور خوب صورت رنگوں کی پھوار چھوڑنے والی رلّی کی طرح۔ اور کہیں یہی کترن کہانیاں ان معصوم لڑکیوں جیسی ہو گئی ہیں جو کھیلنے کی عمر ہی میں جنسیاتی طور اس قدر بلوغت پا لیتی ہیں کہ ان پر ”چھتیس نمبر“ فٹ بیٹھتا ہے۔ چھتیس نمبر فاطمہ حسن کا افسانہ ہے، چونکانے والا مگر فی الاصل ایک کہانی بن جانے والی دوسری کہانیوں کا جزو بن جانے والا۔ تاہم وہ کہانیاں جو مختلف ہو گئی ہیں وہ صرف تین ہیں۔کہانی ایک شہزادی کی زمین کی حکایت اور .... ٹھہری ہوئی یاد میں یہ مان لینے سے قاصر ہوں کہ یہ کہانیاں بھی اسی بوسیدہ ہو جانے والی ڈائری سے برآمد ہوئی تھیں کہ ان میں کہانی کا وہ بھید ہے جس کے سبب راہ گیر راستہ بھول جایا کرتے تھے۔ منشا یاد کہانیوں کے طویل یا مختصر رہ جانے سے دل چسپ نکتے برآمد کیا کرتے ہیں پھر اپنے نقطوں سے کسی بھی افسانہ نگا ر کے ہاں کامیاب افسانوں کی مناسب طوالت یوں تجویز کر دیا کرتے ہیں جیسے ایک ماہر نباض ماپ کر نسخہ تجویز کیا کرتا ہے۔ میں نہیں جانتا فاطمہ حسن کی کہانیوں کو پڑھ کر وہ کیا نسخہ تجویز فرمائیں گے تاہم اتنا جان گیا ہوں کہ شاعری کی چوندھ میں ڈھلتے جذبوں کو بھیدوں بھری رات میں زندگی سے جوڑنے والے شام سمے میں یہ کہانیاں تخلیق ہوئی ہیں۔ وقت کا اتنا کم وقفہ جب رکعتیں بھی سمٹ سمٹا کر کم رہ جاتی ہیں ، زندگی کی گمراہی کو کیسے سمیٹ سکتا ہے۔ لہٰذا ہر کہانی اتنی ان کہی رہ گئی ہے جتنی کسی علامت ، استعارے اور تمثیل نے بتانا تھی، جتنی کرداروں نے اپنی شباہت سے اجالنا تھی، واقعات نے اپنی ترتییب سے سمجھانا تھی اور کرافٹ نے جسے اپنے اندر گوندھنا تھا۔ تاہم وہ تین کہانیاں جنہیں فاطمہ حسن نے سنبھال لیا ہے ، اپنے افسانے ”وہ بچہ“ کی ماں کے رحم میں پلٹ جانے والے بچے کی طرح انہیں واپس نہیں پلٹ جانے دیا، روک لیا ہے، گود لے لیا ہے، شاعری سے وقت نکال کر پوری توجہ سے انہیں لکھا ہے۔ یوں کہ وہ الگ سے دِکھنے لگی ہیں، گُم نہیںہوئی ہیں۔ ایسی کہانیاں گُم ہونے کے لےے ہوتی ہی نہیں ہیں۔ چاہے زمینیں گُم ہو جائیں یا پھر زمین سے اُگنے والے رشتے گُم ہو جائیں، اِن کہانیوں کو زندگہ رہنا ہوتا ہے، لکھنے والے کے وجود کی گواہی بن کر اور اسے زندہ رکھنے کے لےے۔ مجھے یقین ہے فاطمہ حسن ایسی کہانیاں لکھ سکتی ہے اور ضرور لکھے گی۔ یوں وہ شاعری کی طرح اُردو فکشن کا بھی معتبر نام بن سکتی ہے۔

No comments: